وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رِوَايَةً: “يُوشِكُ أَنْ يَضْرِبَ النَّاسُ أَكْبَادَ الإبِلِ يَطْلُبُونَ الْعِلْمَ فَلَا يَجِدُونَ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْ عَالِم الْمَدِينَةِ”. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ فِي جَامِعِهِ. قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: إِنَّهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَمِثْلُهُ عَنْ عَبْدِ الرَّزَاق، قَالَ إسْحَاقُ بْنُ مُوسَى: وَسَمِعْتُ ابْنَ عُيَيْنَةَ أَنَّهُ قَالَ: هُوَ الْعُمَرِيُّ الزَّاهِدُ وَاسْمُهُ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ.
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے ۱؎ کہ لوگ تلاش علم کرتے ہوئے اونٹوں کی سینہ کوبی کریں گےتو مدینہ کے ایک عالم سے بڑا کوئی عالم نہ پائیں گے۲؎ اسے ترمذی نے روایت کیا اور جامع ترمذی میں ہے کہ ابن عیینہ نے فرمایا کہ وہ مالک ابن انس ہیں اور ایسے ہی عبدالرزاق سے روایت ہے۳؎ اسحاق ابن موسیٰ نے فرمایا کہ میں نے ابن عیینہ کو سنا وہ فرماتے ہیں کہ وہ عمری زاہد ہیں ان کا نام عبدالعزیز ابن عبداللہ ہے۴؎ ۔
شرح حديث.
۱؎ یعنی یہ قول ان کا اپنا نہیں بلکہ حضور کا فرمان ہے۔حدیث مرفوع ہے موقوف نہیں۔
۲؎ یعنی میرے بعد قریب ہی لوگ تلاش علم میں ہر طرف سفر کریں گے اور مدینہ منورہ میں ایک ایسا عالم ہوگا کہ اس کے مقابلے میں اس وقت مدینہ میں بھی کوئی عالم نہ ہوگا چہ جائیکہ اور جگہ۔
۳؎ یعنی ان دو بزرگوں کی رائے ہے کہ اس عالم سے مراد حضرت امام مالک ہیں کہ آپ امام مذہب ہیں امام شافعی کے استاد ہیں۔خیال رہے کہ یہ اس وقت کے لحاظ سے ہے ورنہ امام مالک سے پہلے حضرات امام اعظم ابوحنیفہ وغیرہم بڑے بڑے علماء گزرے۔
۴؎ آپ کا نام عبداللہ ابن حفص ابن عاصم ابن خطاب ہے مگر پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔اشعۃ اللمعات نے فرمایا کہ یہ واقعہ قریب قیامت ہوگا جب کہ علم دین مدینہ منورہ میں محدود ہوجائے گا۔وَ اللّٰهُ اَعْلَمْ!
مأخذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:246
حدیث نمبر 246
09
Jun