وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: “مَنْ أُفْتِيَ بِغَيْرِ عِلْمٍ كَانَ إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ، وَمَن أَشَارَ عَلَى أَخِيهِ بِأَمْرٍ يَعْلَمُ أَنَّ الرُّشْدَ فِي غَيْرِهِ فَقَدْ خَانَهُ”. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ.
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہ جو بے علم فتویٰ دے اس کا گناہ فتویٰ لینے والے پر ہے ۱؎ اور جو اپنے بھائی کو کسی چیز کا مشورہ یہ جانتے ہوئے دے کہ درستی اس کے علاوہ میں ہے اس نے اس کی خیانت کی ۲؎ (ابوداؤد)
شرح حديث.
۱؎ اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں:ایک یہ کہ جو شخص علماء کو چھوڑ کر جاہلوں سے مسئلہ پوچھے اور وہ غلط مسئلہ بتائیں تو پوچھنے والابھی گنہگار ہوگا کہ یہ عالم کو چھوڑ کر اس کے پاس کیوں گیا نہ یہ پوچھتا نہ وہ غلط بتاتا اس صورت میں اَفتٰی بمعنی اِستَفتٰی ہے۔دوسرے یہ کہ جس شخص کو غلط فتویٰ دیا گیا تو اس کا گناہ فتوےٰ دینے والے پر ہے اس صورت میں پہلا اُفتِی مجہول ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ بے علم کو مسئلہ شرعی بیان کرنا سخت جرم ہے۔
۲؎ یعنی اگر کوئی مسلمان کسی سے مشورہ حاصل کرے اور وہ دانستہ غلط مشورہ دے تاکہ وہ مصیبت میں گرفتار ہوجائے تو وہ مشیر پکا خائن ہے خیانت صرف مال ہی میں نہیں ہوتی،راز،عزت،مشورے تمام میں ہوتی ہے۔
مأخذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:242
حدیث نمبر 242
09
Jun