وَعَنْ مُعَاذٍ قَالَ كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلىٰ حِمَارٍ لَيْسَ بَيْنِيْ وَ بَيْنَهٗ إلَّا مُؤَخَّرَةُ الْرَحْلِ فَقَالَ يَا مُعَاذُ هَلْ تَدْرِيْ مَا حَقُّ اللهِ عَلٰی عِبَادِهٖ وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللهِ قُلْتُ اللّٰهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّ حَقَّ اللهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلَا يُشْرِكُوْا بِهٖ شَيْئًا وَحَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللهِ أَنْ لَا يُعَذِّبَ مَنْ لَا يُشْرِكُ بِهٖ شَيْئًا قُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ أَفَلَا أُبَشِّرُ بِهِ النَّاسَ قَالَ لَا تُبَشِّرْهُمْ فَيَتَّكِلُوْا(مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ)
ترجمه.
روایت ہے حضرت معاذ سے ۱؎ کہ میں ایک دراز گوش پر حضور کے پیچھے اس طرح سوار تھا کہ میرے آپ کے درمیان پالان کی لکڑی کے سوا کچھ نہ تھا ۲؎ حضور نے فرمایا کہ معاذ کیا جانتے ہو الله کا حق اپنے بندوں پر کیا ہے اور بندوں کا حق الله پر کیا ہے۳؎ میں نے عرض کیا الله رسول جانیں فرمایا الله کا حق بندوں پر تو یہ ہے کہ اُسے پوجیں کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں ۴؎ اور بندوں کا حق الله پر یہ ہے کہ جو اس کا شریک نہ ٹھہراتا ہو اُسے عذاب نہ دے ۵؎ میں نے عرض کیایارسول الله تو کیا میں لوگوں کو یہ بشارت نہ دے دوں فرمایا یہ بشارت نہ دو ورنہ لوگ اس پر بھروسہ کر بیٹھیں گے۶؎(مسلم،بخاری)
شرح حديث.
۱؎ آپ معاذ بن جبل انصاری خرزجی،کنیت ابو عبد الله ہے،بیعت عقبہ کرنے والے ستّر انصار میں آپ بھی تھے،بدر اور تمام غزوات میں حضور کے ساتھ رہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو یمن کا گورنر بنایا،عمر فاروق نےشام کا حاکم مقرر کیا،طاعون عمواس میں بعمر۸۳ سال آپ کی وفات ہوئی،شام میں قبر شریف ہے،آپ کے فضائل بے حدو بے شمار ہیں۔
۲؎ یعنی خوش نصیبی سے مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ہی قرب نصیب تھا اور ظاہر ہے کہ اتنے قریب سے جو بات سنی جائے گی وہ بالکل درست سنی جائے گی۔ردیف ردفا سے بنا ہے بمعنی پیچھے،ایک گھوڑے یا اونٹ پر دو شخص سوار ہوں تو پیچھے والاردیف کہلاتا ہے۔دو آدمیوں کا جانور پر سوار ہونا جب منع ہے کہ جانور کمزور ہو،دو کا بوجھ نہ اٹھا سکے۔لہذا یہ حدیث ممانعت کی حدیث کے مخالف نہیں۔
۳؎ حق کے معنی واجب الازم۔لائق بندوں کے متعلق تینوں معنی درست ہیں کہ الله کی عبادت ان پر واجب ہے،لازم ہے،ان کے لائق ہے۔ الله تعالٰی کے لئے یہ معنی اور طرح درست ہوں گے وہ یہ کہ اس کریم نے اپنے ذمہ کرم پر خود لازم فرمالیا کہ عابدوں کو جزا دے کوئی اور اس پر واجب نہیں کرسکتا،لہذا جن روایتوں میں آیا ہے کہ الله پر کسی کا حق نہیں وہ دوسرے معنی میں ہے کہ کوئی اس پر واجب نہیں کرسکتا کیونکہ کوئی اس کا حاکم نہیں وہ سب کا حاکم ہے۔
۴؎ اس طرح کہ نہ تو کسی کو اس کا ہمسر جانیں،نہ اس کا بیوی بچہ لہذا اس میں مجوسیت،نصرانیت،یہودیت سب ہی داخل ہیں۔ان ہی تمام دینوں سے علیحدگی ضروری ہے۔
۵؎ یعنی کفر نہ کرتا ہواسے دائمی عذاب نہ دے ایسے مقامات پر شرک بمعنی کفر ہوتا ہے اور عذاب سے دائمی عذاب مراد ورنہ بعض گنہگاروں کو بھی کچھ عذاب ہوجائے گا۔(اشعۃ اللمعات)وغیرہ
۶؎ اس طرح کہ مقصد کلام سمجھیں گے نہیں اور اعمال چھوڑدیں گے کہ جب فقط درستیٔ عقیدہ سے ہی عذاب سے نجات مل جاتی ہے تو نماز وغیرہ عبادات کی کیا ضرورت ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ عالم عوام کو وہ مسئلہ نہ بتائے جو ان کی سمجھ سے ورا ہو۔خیال رہے کہ حضرت معاذ نے اس وقت بشارت نہ دی بلکہ یہ حدیث بطور خبر بعد میں بعض خواص کو سنادی لہذا کوئی اعتراض نہیں اس کا کچھ ذکر اگلی حدیث میں آرہا ہے۔
مأخذ. کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:24
حدیث نمبر 24
24
Apr