وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: “أُنْزِلَ الْقُرْآنُ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ. لِكُلِّ آيَةٍ مِنْهَا ظَهْرٌ وَبَطْنٌ، وَلِكُلِّ حَدٍّ مُطَّلَعٌ”. رَوَاهُ فِي “شَرْحِ السُّنَّةِ”
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت ابن مسعود سے فرماتے ہیں فرمایارسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہ قرآن سات طریقوں پر اترا ۱؎ ان میں سے ہر آیت کا ظاہر بھی ہے باطن بھی۲؎ اور ہر ظاہر و باطن کی ایک حد ہے جہاں سے اطلاع ہے۳؎ (شر ح سنّہ)
شرح حديث.
۱؎ طریقوں سے مراد یا تو عربی لغتیں ہیں،چونکہ عرب میں سات قبیلے فصاحت و بلاغت میں مشہور تھے،قریش،ثقیف،طے،ہوازن، مذیل،یمنی،تمیم اور ان کی زبانوں کا آپس میں کچھ اختلاف تھاجیسے دہلی اور لکھنؤ والوں کی اردو میں قدرے فرق ہے۔نزول قرآن قریش کی زبان میں ہوا جو دوسرے قبیلوں پر بھاری تھی۔اسی لئے ان کو اجازت دی گئی کہ اپنی اپنی زبانوں میں تلاوت کریں۔زمانۂ نبوی میں عام تلاوت قریشی زبان میں ہوتی تھی۔مگر بعض لوگ دوسری قرأتوں میں بھی تلاوت کرتے تھے۔حضور کے پردہ فرمانے کے بعد یہ اختلاف فساد کا باعث بننے لگا،عہد عثمانی میں جب قرآن پاک کو کتابی شکل میں جمع کیا گیا تو لغت قریش کو ملحوظ رکھا گیا جس میں قرآن کا نزول ہوا تھا باقی قراتیں ختم کردی گئیں تاکہ مسلمانوں میں یہود و نصاریٰ کا سا اختلاف نہ ہو اس میں قرآن کی تبدیلی نہ تھی بلکہ فتنہ کا دفع کرناتھاجیسے”فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ”میں لفظ اف لغت قریش میں الف کے پیش ف کے شد اور زیروتنوین سے ہے دیگر لغتوں میں الف کے زبر یا زیرف کا زبر یا زیر بغیرتنوین شد اور بغیر شد کے ہے معنی ایک ہیں لفظوں میں اتنا اختلاف یا اس سے مراد سات قرأتیں ہیں”یا مَالِكِ مَلِكِ مَلِیْكِ یَوْمِ الدِّیْنِ”وغیرہ،یا مطلب یہ ہے کہ سات معانی پر اترا امر،نہی،مثالیں،قصے،وعدے، وعیدیں اور نصیحتیں یا سات چیزیں لےکر اترا،عقائد،احکام،اخلاق،حرام،حلال،محکم،متشابہ اور بھی اس کی بہت تفسیریں کی گئیں ہیں۔
۲؎ یعنی قرآن کی ہر آیت کی ظاہر مراد بھی ہے اور باطنی بھی،ظاہری مراد اس کا لفظی ترجمہ ہے باطنی مراد اس کا منشاء اور مقصد،یا ظاہر شریعت ہے اورباطن طریقت،یا ظاہر احکام ہیں اور باطن اسرار،یا ظاہر وہ ہے جس پر سب علماء مطلع ہیں اور باطن وہ ہے جس سے صوفیائے کرام خبردار ہیں،یا ظاہر وہ جو نقل سے معلوم ہو باطن وہ جو کشف سے معلوم ہو جیسے”یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قٰتِلُوا الَّذِیۡنَ یَلُوۡنَکُمۡ مِّنَ الْکُفَّارِ” اس کے ظاہری معنی یہ ہیں کہ اپنے قریبی کافروں پر لوہے کی تلوار وغیرہ سے جہاد کرو باطن یہ ہے کہ قریبی کافر اپنے نفس امارہ پر مجاہدے کی تلوار اوراعانت یار سے جہادکرو۔
۳؎ حدمطلع وہ پہاڑ کی چوٹی یا اونچا ٹیلہ ہے۔جہاں سے دور تک چیزیں دیکھی جاسکیں یعنی قرآن کے ظاہر و باطن معلوم کرنے کے علیحدہ مقامات ہیں۔چنانچہ اس کا ظاہر علماء سے اور باطن مشائخ سے معلوم ہوتا ہے یا ظاہر قال سے،باطن حال سے،یا ظاہرنحو سے باطن فنا اور محو سے،یا ظاہر کتابوں سے باطن کسی کی نظر سے۔شعر
دین مجو اندرکتب اے بے خبر
علم و حکمت ازکتب دین از نظر
صد کتاب و صد ورق ورنارکن
رُوئے دل را جانب دلدار کن
غرضکہ جیسے قرآن کے ظاہر کے الفاظ میاں جی سے،تجوید قاری سے،حفظ حافظ سے،معانی عالم سے،احکام مجتہد سے سیکھے جاتے ہیں،ایسے ہی اس کے اسرار مشائخ سے حاصل کئےجائیں۔ہر ایک کا حدمطلع علیحدہ ہے۔خیال رہے کہ مشائخ وہ حضرات ہیں جو شریعت و طریقت کے جامع ہوں،نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پروانے ہوں،آپ کے دین کے سچے مبلغ ہوں۔وہ جاہل صوفی جوفقط میراثی ولی بنے بیٹھے ہیں فاسق و فاجر ہیں وہ مراد نہیں.
مأخذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:238