وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ: سَمِعَ النَّبِيُّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَوْمًا يَتَدَارَؤُونَ فِي الْقُرْآنِ فَقَالَ: “إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِهَذَا: ضَرَبُوا كِتَابَ اللَّهِ بَعْضَهُ بِبَعْضٍ، وَإِنَّمَا نَزَلَ كِتَابُ اللَّهِ يُصَدِّقُ بَعْضُهُ بَعْضًا،فَلَا تُكَذِّبُوا بَعْضَهُ بِبَعْضٍ، فَمَا عَلِمْتُمْ مِنْهُ فَقُولُوا، وَمَا جَهِلْتُمْ فَكِلُوهُ إِلَى عَالِمِهِ”. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَهْ.
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت عمرو ابن شعیب سے وہ اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے راوی ۱؎ فرماتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے ایک جماعت کو قرآن میں جھگڑا کرتے سنا۲؎ تو فرمایا کہ اس حرکت سے تم سے پہلے لوگ ہلاک ہوگئے کہ انہوں نے بعض کتاب کو بعض سے ٹکرایا ۳؎ کتاب الله تو اس لیے اتری کہ بعض بعض کی تصدیق کرے لہذا تم بعض کو بعض سے جھٹلاؤ نہیں ۴؎ جس قدر کتاب جانو کہو جو نہ جانو اسے عالم کے سپردکرو ۵؎ (احمد،ابن ماجہ)
شرح حديث.
۱؎ پہلے بیان کیا جاچکا کہ آپ کانام عمرو ابن شعیب ابن محمد ابن عبدالله ابن عمرو ابن عاص ہے۔عبدالله ابن عمرو ابن عاص صحابی ہیں اور ان کے بیٹے محمد تابعی،اگرجَدِّہٖکی ضمیر عمرو کی طرف لوٹے تو یہ حدیث مرسل ہے کیونکہ عمرو کے دادا محمد تابعی ہیں،اور اگر شعیب کی طرف لوٹے تو یہ حدیث متصل ہے،کیونکہ شعیب کے دادا عمرو ابن عاص صحابی ہیں غرض کہ مُدَلَّس ہے۔(ازمرقاۃ)
۲؎ اس طرح کہ ایک شخص اپنا قول ایک آیت سے ثابت کررہا ہے اور دوسرا اس کے خلاف،دوسری آیت سے جس سے سننے والے کو شبہ پیدا ہو،کہ قرآنی آیتیں یکساں نہیں ان میں سخت تعارض و اختلاف ہے جیسے ایک کہے کہ خیرو شر الله کی طرف سے ہے رب فرماتا ہے:”قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِنۡدِ اللّٰهِ”اور دوسرا کہے کہ نہیں خیر رب کی طرف سے ہے شر ہماری طرف سے رب فرماتا ہے:”مَاۤ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰهِ وَمَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ سَیِّئَۃٍ فَمِنۡ نَّفْسِکَ”یہ ہے قرآن میں جھگڑا جو حرام بلکہ کبھی کفر ہے۔
۳؎ یعنی تعارض دکھایا یہ عیسائی و یہودی وغیرہ تھے جو توریت و انجیل کی آیتوں میں مطابقت نہ کرسکے بہت سے فرقے بنا بیٹھے اور ہر فرقہ ان کتابوں کی بعض آیات سے دلیل پکڑنے لگا، الله محفوظ رکھے۔
۴؎ کتاب الله سے مراد قرآن شریف ہے یاساری آسمانی کتب پہلے معنی زیادہ ظاہر ہیں یعنی قرآنی آیات آپس میں مخالف نہیں بلکہ یکساں ہیں،اگر تعارض معلوم ہو تو ہماری سمجھ کا قصور ہے یا ہم تاریخ سے بے خبرہیں ناسخ منسوخ کو نہیں پہچانتے یا ہم آیتوں کے معانی کو صحیح نہ سمجھے۔
۵؎سبحان اللّٰه ! کیا نفیس تعلیم ہے کہ جاہل قرآن کی تفسیرکو ہاتھ نہ لگائے جب بے علم مریض کا علاج نہیں کرتا،انجن کی مشین کو ہاتھ نہیں لگاتا بلکہ ناتجربہ کار حجام سر نہیں مونڈتا،تو ہر بے خبرتفسیر قرآن کو کیوں ہاتھ لگائے۔
لطیفہ:کسی نے ایک عالم سے کہا کہ قیامت کا دن کتنا بڑا ہے قرآن اسے ایک ہزار سال کا بھی کہتا ہے اور پچاس ہزار سال کا بھی،حدیث نے تو غضب ہی کردیا وہ فرماتی ہے کہ چار رکعت نماز پڑھنے کے بقدر ہوگا نہ قرآن کا اعتبار نہ حدیث کا العیاذ باللّٰه! عالم نے فرمایا کہ قرآن و حدیث صحیح ہیں تیری سمجھ غلط،وہ دن ایک ہزار برس کا ہے لیکن کفار کو تکلیف کی وجہ سے پچاس ہزار سال کا اور مؤمن کو راحت کی وجہ سے دس منٹ کا محسوس ہوگا جیسے ایک ہی رات بیمار کو لمبی تندرست کو چھوٹی اور جو محبوب کے پاس گزارے اسے منٹوں کی محسوس ہوتی ہے۔
مأخذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:237
حدیث نمبر 237
09
Jun