علم کا بیان, مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح

حدیث نمبر 231

عَنْ أَبِى الدَّرْدَاءِقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَقُولُ: “نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا شَيْئًا فَبَلَّغَهُ كَمَا سَمِعَهُ، فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعَى لَهُ مِنْ سَامِعٍ”. وَرَوَاهُ الدَّارمِيُّ
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت ابو درداء سے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ الله اسے ہرا بھرا رکھے جو ہم سے کچھ سنے ۱؎ پھر جیسا سنے ویسا ہی پہنچادے۲؎ کیونکہ بہت سے پہنچائے ہوئے سننے والے سے زیادہ سمجھدار ہوتے ہیں اسے دارمى نے روایت کیا ہے
شرح حديث.
۱؎ یعنی مجھ سے یا میرے صحابہ سے میرا یا ان کا کوئی قول یا عمل سنے۔لہذا حدیث چار قسم کی ہوئی حضور کا قول اور فعل،صحابہ کا قول اور فعل۔اسی لیئےمِنَّا جمع اور شَیئًا نکرہ ارشاد ہوا۔
۲؎اس طرح کہ مضمون نہ بدلے یا حدیث کے الفاظ میں فرق نہ پیدا ہو۔خیال رہے کہ ابن عمر،مالک ابن انس،ابن سیرین وغیرہم کے نزدیک حدیث کی روایت بالمعنٰے حرام ہے،کیونکہ بسا اوقات لفظ کے بدلنے سے معنی بدل جاتے ہیں اور راوی کو خبر نہیں ہوتی اور امام حسن،شعبی،نخعی و مجاہد وغیرہم کے نزدیک روایت بالمعنی جائز کہ راوی حدیث کے الفاظ اس طرح بدل دے کہ معنی نہ بدلیں۔پہلے قول میں احتیاط ہے دوسرے میں گنجائش،بہتر یہی ہے کہ الفاظ بھی نہ بدلیں۔دیکھئے حضرت وائل ابن حجر نے نماز کی آمین کے بارے میں فرمایا”مَدَّبِھَا صَوتَہٗ”بعض راویوں نے اسے”رَفَعَ بِھَا صَوتَہٗ”سے روایت کیا۔وہ سمجھے کہ دونوں کے معنٰے ایک ہی ہیں مگر بعد والوں کو دھوکہ لگا کہ شاید اس کے معنی ہیں بلند آواز سےآمین کہی،حالانکہ اس کا ترجمہ تھا کہ آمین کھینچ کر الف کے مد کے ساتھ کہی،روایت بالمعنٰی میں یہ خطرے ہیں اس لیئے فرمایا کہ جیسی سنے ویسی پہنچائے۔

وضاحت: اس حدیث 231اور پچھلی حدیث 230 میں صرف کتاب اور سند کا فرق ہے۔

مأخذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:231