وَعَنْ أَبِيْ مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «مَا أَحَدٌ أَصْبَرُ عَلَى أَذًى يَسْمَعُهُ مِنَ اللّٰهِ يَدْعُوْنَ لَهُ الْوَلَدَ ثُمَّ يُعَافِيهِمْ وَيَرْزُقُهُمْ»(مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ)
ترجمه.
اور روایت ہے حضرت ابو موسیٰ اشعری سے فرماتے ہیں کہ فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ تکلیف دہ بات کو سنتے ہوئے صبر کرنے والا ۱؎ خدا سے بڑھ کر کوئی نہیں لوگ اس کے لئے اولاد کا دعویٰ کرتے ہیں پھر بھی وہ انہیں راحت و رزق دیئے جاتا ہے۲؎(بخاری ، مسلم )
شرح حديث.
۱؎ یہاں صبر سے مراد حلم ہے۔اسی معنی سے الله تعالٰی کا نام پاکصبوریاصبار ہے،نہ کہ وہ صبر جو کہ مجبوری کی وجہ سے ہو اس کی تفسیر اگلا مضمون ہے۔
۲؎ یعنی باوجود یہ کہ لوگ الله تعالٰی کو عیب لگاتے ہیں اور رب تعالٰی اس سے خبردار بھی ہے،ان پر ہر طرح قادر بھی لیکن انہیں فورًا عذاب نہیں دیتا،بلکہ دنیا میں انہیں تندرستی،امن،روزی دیتا ہے کیونکہ دنیا اس کی رحمانیت کے ظہور کی جگہ ہے۔بعد موت نہ انہیں امن دے،نہ روزی وغیرہ وہاں اس کی رحیمیت کی جلوہ گری ہوگی۔
مأخذ. کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:23
حدیث نمبر 23
24
Apr