وَرَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: “من سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَهٗ ثُمَّ كَتَمَهٗ أُلْجِمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ”. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ.
ترجمه حديث.
اور اس کو روایت کیا ہےاب ماجہ نے حضرت انس سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہ جس سے علمی بات پوچھی گئی جسے وہ جانتا ہے پھر اسے چھپائے تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام دی جائے گی ۱؎ (احمد،ابوداؤد،ترمذی)
شرح حديث.
۱؎ یعنی اگرکسی عالم سے دینی ضروری مسئلہ پوچھا جائے اور وہ بلاوجہ نہ بتائے تو قیامت میں وہ جانوروں سے بدترہوگا کہ جانور کے منہ میں چمڑے کی لگام ہوتی ہے اور اس کے منہ میں آگ کی لگام ہوگی۔خیال رہے کہ یہاں علم سے مراد حرام،حلال،فرائض واجبات وغیرہ تبلیغی مسائل ہیں جن کا چھپانا جرم ہے۔عالم پر شرعی مسئلہ بتانا ضروری ہے نہ کہ لکھنا لہذا مفتی فتوے لکھنے کی اجرت لےسکتا ہے۔ خصوصًا وہ فتویٰ جن پرمقدمے چلتے ہیں اورمفتی کو کچہریوں میں حاضری دینی پڑتی ہے۔رب فرماتا ہے:”وَلَا یُضَآرَّکَاتِبٌ وَّلَا شَہِیۡدٌ”۔
وضاحت: اس حدیث اور پچھلی حدیث میں صرف کتاب اور سند کا فرق ہے۔
مأخذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:224
۔