ایمان و کفر کا بیان, باب الایمان(مشکوۃ)

حدیث نمبر 22

وَعَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللّٰهُ تَعَالٰى: يُؤْذِيْنِيْ اِبْنُ اٰدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ بِيَدِيَ الْأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ)
ترجمه.
روایت ہے حضرات ابوہریرہ سے فرماتے ہیں کہ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاللہ تعالی فرماتا ہے کہ مجھے انسان ایذا دیتا ہے ۱؎ کہ زمانہ کو گالیاں دیتا ہے۲؎حالانکہ زمانہ(مؤثر)تو میں ہوں۔میں رات و دن کو الٹ پلٹ کر تا ہوں ۳؎(مسلم،بخاری)
شرح حديث.
۱؎ ایذا سے مراد ناراض کرنا ہے،یعنی میرے متعلق وہ باتیں کرتا ہے جس سے میں ناراض ہوتا ہوں،ورنہ خدا تعالٰی دکھ درد اور تکلیف سے پاک ہے۔
۲؎ اس طرح کہ کہتا ہے ہائے زمانے تو نے مجھ پر ظلم کردیا،میرے فلاں کو مار دیا،ہائے ظالم زمانہ یا آسمان،جیسے کہ مولوی محمود حسن دیوبندی نے مرثیہ گنگوہی میں زمانہ کو جی بھر کے کوسا،پیٹاہے یہ حرام ہے۔اس حدیث سے معلو م ہوتا ہے کہ الله کی محکوم چیزوں کو برا کہنا رب کی ناراضی کا باعث ہے۔ایسے ہی الله کے پیاروں کی توہین۔
۳؎ اس طرح کہ دن کو لے جاتا ہوں،رات کو لاتا ہوں اور بالعکس،نیز انہیں چھوٹا،بڑا،گرم،سرد،مفید و مضر بناتا ہوں لہذا انہیں برا کہنا مجھ پر طعن ہے۔خیال رہے کہ یہاں دھر(زمانہ)سے مراد مؤثر حقیقی اور مسبب الاسباب ہے۔ورنہ رب تعالٰی کودھر کہنا درست نہیں اور نہدھر الله کا نام ہے۔
مأخذ. کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:22