وَعَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيّ قَالَ: ذُكِرَ لِرَسُولِ اللهِ -صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – رَجُلَانِ: أَحَدُهُمَا عَابِدٌ وَالآخَرُ عَالِمٌ، فَقَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : “فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِي عَلٰی أَدْنَاكُمْ” ثُمَّ قَالَ رَسُولُ الله -صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : “إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ وَأَهْلَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ حَتَّى الْنَّمْلَةَ فِي جُحْرِهَا، وَحَتَّى الْحُوتَ لَيُصَلُّونَ عَلٰی مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَيْرَ”. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
ترجمه حديث.
روایت ہے ابو امامہ باہلی سے فرماتے ہیں کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں دوشخصوں کا ذکر ہوا جن میں سے ایک عابد دوسرا عالم ہے۔۱؎ تو حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ عالم کی عابد پر فضیلت ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ادنی پر ۲؎ پھر فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہ الله اور اس کے فرشتے اور آسمان و زمین والے حتی کے چیونٹیاں اپنے سوارخوں میں اور مچھلیاں(پانی میں)صلوٰۃ بھیجتے ہیں لوگوں کو علم دینی سکھانے والے پر۳؎ اسے ترمذی نے روایت کیا۔
شرح حديث.
۱؎ ظاہر یہ ہے کہ ان سے خاص مرد مرادنہیں بلکہ عمومی سوال ہے،یعنی اگر دو آدمیوں میں سے ایک عالم اورایک عابد ہوتو درجہ کس کا زیادہ ہوگا،عالم و عابد کے معنی ہم پہلے بیان کرچکے۔
۲؎ یہ تشبیہ بیان نوعیت کے لئے نہ کہ بیان مقدار کے لئے،یعنی جس قسم کی بزرگی مجھ کو تمام مسلمانوں پر حاصل ہے اس قسم کی بزرگی عالم کو عابد پریعنی دینی بزرگی نہ کہ محض دنیاوی،اگرچہ ان دونوں بزرگیوں میں کروڑ ہا فرق ہیں۔بادشاہ کو رعایا پر سلطنت کی،مالدار کو فقیر پر مال کی،جتھے والے کو بے کس پر قوت کی،حسین کو بدشکل پر جمال کی بزرگی حاصل ہے۔مگر یہ بزرگیاں،دنیوی اور فانی ہیں،نبی کو مخلوق پر دینی بزرگی حاصل ہے،جوابد الآباد تک قائم ہے،ایسے ہی عالم کو جاہل پر،آج سکندر کو کسی فقیر پر ملکی بزرگی نہیں،مگر امام ابوحنیفہ کو تمام مقلدین پر بے پناہ عظمت اب بھی حاصل ہے۔خیال رہے حضور انور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو نبیوں پر اور درجہ کی بزرگی ہے،صحابہ پر اور درجہ کی،اولیاء و علماء پر اور درجہ کی،عوام پراور درجہ کی،اَدْنیٰ کُمْ میں اس آخری درجہ کی طرف اشارہ ہے۔ فرماتے ہیں:”وَ احْشُرْنِیْ فِیْ زُمْرَۃِ
الْمَسَاکِیْنِ”رب تعالٰی فرماتاہے:”مَثَلُ نُوۡرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیۡہَا مِصْبَاحٌ”اس آیت میں نور الٰہی کی مثال نور چراغ سے دی گئی حالانکہ چراغ کے نور کو اس نور سے کیا نسبت ؟ایسے ہی یہ بھی تمثیل ہے۔
۳؎ ملائکہ سے حاملین عرش فرشتے اوراھلِ سمٰوٰت سے باقی فرشتے مراد ہیں۔الله کی صلوٰۃ سے اس کی خاص رحمت اور مخلوق کی صلوٰۃ سے خصوصی دعائے رحمت مراد ہے،ورنہ عام رحمتیں اور عام دعائیں سارے مسلمانوں کے لیئے ہیں۔رب تعالٰی فرماتا ہے:”ھُوَ الَّذِیۡ یُصَلِّیۡ عَلَیۡکُمْ وَ مَلٰٓئِکَتُہٗ” اور فرماتاہے:”وَ یَسْتَغْفِرُوۡنَ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا”الخ۔لہذا یہ حدیث نہ تو قرآن کے خلاف ہے اور نہ اس سے یہ لازم آیا کہ علماءحضور کے برابر ہوجائیں کیونکہ حضور پربھی رب تعالٰی صلوٰۃ بھیجتاہے اور علماء پربھی۔.
مأخذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:213
حدیث نمبر 213
06
Jun