وَعَنْ أَبِيْ مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ -صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَقَالَ: إِنَّهُ أُبْدِعَ بِي فَاحْمِلْنِي، فَقَالَ: “مَا عِنْدِي فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ الله أَنَا أَدُلُّهٗ عَلٰی مَنْ يَحْمِلُهٗ، فَقَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “مَنْ دَلَّ عَلٰى خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِهٖ” رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت ابومسعود انصاری سے ۱؎ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور انور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا بولا کہ میرا اونٹ تھک رہا ہے مجھےسواری دیجئے فرمایا میرے پاس نہیں ۲؎ ایک نے کہا یارسول اللہ میں اسے وہ آدمی بتاتا ہوں جو اسے سواری دے دے تب حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو بھلائی پر رہبری کرے اسےکرنے والے کی طرح ثواب ہے۳؎ (مسلم)
شرح حديث.
۱؎ آپ کا نام عقبہ ابن عمرو ہے،کنیت ابو مسعود انصاری ہے،بدری ہیں،یعنی غزوۂ بدر میں شریک ہوئے یا اس بستی میں کچھ روز رہے،عقبہ ثانیہ کی بیعت میں شریک تھے،کوفہ میں قیام رہا،خلافت علی مرتضیٰ میں وفات ہوئی۔
۲؎ اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے:ایک یہ کہ ضرورت کے وقت مانگنا جائزہے خصوصًا حضور سے مانگنا ہر ایک کے لئے فخر ہے۔دوسرے یہ کہ جب چیز موجود نہ ہو تو سائل کو انکارکرنا بخل نہیں۔حضورخلق الٰہی میں بڑے سخی اور داتا ہیں لیکن اس وقت منع فرمانا اظہار مسئلہ کے لئے ہے کہ قرض لے کر سخاوت نہ کرو۔وہ جو روایات میں ہے کہ حضور نے کبھی “نہ” نہیں فرمایا۔اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ موجود چیز سے منع نہیں فرمایا یا یہ نہیں فرمایا کہ تجھے نہیں دیں گے لہذا احادیث متعارض نہیں۔
۳؎ یعنی نیکی کرنے والا،کرانے والا،بتانے والا،مشورہ دینے والا سب ثواب کےمستحق ہیں لہذا تمہیں بھی ثواب ملے گا۔
مأخذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:209
حدیث نمبر 209
06
Jun