وَعَنْ مُعَاوِيَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «مَنْ يُرِدِ اللّٰهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللهُ يُعْطِيْ»(مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ)
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت معاویہ سے ۱؎ فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے الله جس کا بھلا چاہتا ہے اسے دین کا فقیہ بنا دیتا ہے۲؎ میں بانٹنے والا ہوں الله دیتا ہے۳؎ (بخاری،مسلم).
شرح حديث.
۱؎ آپ کا نام شریف معاویہ ابن ابو سفیان ابن حرب ابن امیہ ابن عبدالشمس ابن عبدمناف ہے،آپ پانچویں پشت یعنی عبد المناف میں حضور سے مل جاتے ہیں،آپ کی والدہ ہند بنت عتبہ ابن ربیعہ ابن عبدالشمس ابن عبدمناف ہیں۔آپ صلح حدیبیہ کے سال اسلام لائے،مگر فتح مکہ کے دن اسلام ظاہر کیا۔حضور کے سالے ہیں،کاتب وحی ہیں،عہد فاروقی میں شام کے حاکم بنے،چالیس سال وہاں کے ہی حاکم رہے،امام حسن ابن علی رضی اللہ عنہما نے آپ کے حق میں خلافت سے دست برداری فرما کر صلح فرمالی۔ آپ کی وفات 4 رجب 60ھ میں لقوہ کی بیماری سے ہوئی 78 سال عمر پائی،آپ کے پاس حضور کا تہبند،چادر شریف،قمیض مبارک اور کچھ بال و ناخن شریف تھے وصیت کی تھی کہ مجھے اس لباس شریف میں کفن دینا اور میرے منہ اور ناک میں ناخن اور بال شریف رکھ دینا،آپ کے پورے حالات شریف ہماری کتاب امیر معاویہ میں دیکھو۔
۲؎ یعنی اسے دینی علم،دینی سمجھ ا ور دانائی بخشتاہے۔خیال رہے کہ فقہ ظاہری شریعت ہے اور فقہ باطنی طریقت اور حقیقۃً یہ حدیث دونوں کو شامل ہے۔اس حدیث سے دو مسئلے ثابت ہوئے:ایک یہ کہ قرآن و حدیث کے ترجمے اور الفاظ رٹ لینا علم دین نہیں،بلکہ انکا سمجھنا علم دین ہے۔یہی مشکل ہے اسی کے لئے فقہاء کی تقلید کی جاتی ہے اسی وجہ سے تمام مفسرین و محدثین آئمہ مجتہدین کے مقلد ہوئے اپنی حدیث دانی پر نازاں نہ ہوئے رب فرماتا ہے:”مَنۡ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا”وہاں حکمت سے مراد فقہ ہی ہے۔قرآن و حدیث کے ترجمے تو ابوجہل بھی جانتا تھا۔دوسرے یہ کہ حدیث و قرآن کا علم کمال نہیں،بلکہ ان کا سمجھنا کمال ہے۔عالم دین وہ ہے جس کی زبان پر الله اور رسول کا فرمان ہو اور دل میں ان کا فیضان،فیضان کے بغیر فرمان بیکار ہے،جیسے بجلی کی پاور کے بغیر فٹنگ بیکار۔
۳؎ اس سے معلوم ہوا کہ دین و دنیا کی ساری نعمتیں علم،ایمان،مال،اولاد وغیرہ دیتا الله ہے بانٹتے حضور ہیں جسے جو ملا حضور کے ہاتھوں ملا،کیونکہ یہاں نہ الله کے دین میں کوئی قیدہے نہ حضور کی تقسیم میں۔لہذا یہ خیال غلط ہے کہ آپ صرف علم بانٹتے ہیں ورنہ پھر لازم آئے گا کہ خدا بھی صرف علم ہی دیتا ہے۔خیال رہے کہ حضور کی دَین یکساں ہے مگر لینے والوں کے لینے میں فرق ہے۔بجلی کاپاور یکساں آتا ہے مگر مختلف طاقتوں کے بلب بقدر طاقت پاور کھینچتے ہیں۔پھر جیسا بلب کا شیشہ ویسا اس کا رنگ حنفی شافعی ایسے ہی قادری چشتی ہیں مختلف رنگ کے مگر سب میں پاور ایک ہی ہے ایک ہی سمندر سے تمام دریا بنے مگر راستوں کے لحاظ سے ان کے نام الگ الگ ہوگئے ایسے ہی قادری چشتی وغیرہ ان سینوں کے نام ہیں جن سے یہ فیض آرہا ہے۔
مأخذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:200
حدیث نمبر 200
06
Jun