وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللّٰهُ تعالیٰ كَذَّبَنِيْ ابْنُ آدَمَ وَلَمْ يَكُنْ لَهٗ ذٰلِكَ وَشَتَمَنِيْ وَلَمْ يَكُنْ لَهٗ ذٰلِكَ فَأَمَّا تَكْذِيْبُهٗ إِيَّايَ فَقَوْلُہٗ لَن يُعِیْدَنِیْ كَمَا بَدَأَنِيْ وَلَيْسَ أَوَّلُ الْخَلْقِ بِأَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ إِعَادَتِهٖ وَأَمَّا شَتْمُهٗ إِيَّايَ فَقَوْلُہٗ اِتَّخَذَ اللهُ وَلَدًا وَأَنَا الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِيْ لَمْ أَلِدْ وَلَمْ أُوْلَدْ وَلَمْ يَكُنْ لِيْ كُفُوًا أَحَدٌ
ترجمه.
روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ رب فرماتا ہے ۱؎ انسان مجھے جھٹلاتا ہے یہ اُسے مناسب نہ تھااور مجھے گالی دیتا ہے یہ اسے درست نہ تھا ۲؎ اس کا مجھے جھٹلانا تویہ ہے کہ کہتا ہے رب مجھے پہلے کی طرح دوبارہ نہ بناسکے گا۳؎ حالانکہ پہلی بار پیدا فرمانا دوبارہ بنانے سے آسان تر تو نہیں ۴؎ اس کی گالی اس کی یہ بکواس ہے کہ الله تعالٰی نے اولاد اختیار کی۵؎ میں تو اکیلا بے نیاز ہوں۶؎ نہ جنا نہ جنا گیا میرا کوئی ہمسرنہیں ۷؎
شرح حديث.
۱؎ یہ حدیث قدسی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”قَالَ اللّٰهُ”۔حدیث قدسی اور قرآن میں فرق یہ ہے کہ حدیث قدسی خواب،الہام سے بھی حاصل ہوسکتی ہے۔قرآن بیداری ہی میں آئے گا۔نیز قرآن کے لفظ بھی رب کے ہیں،حدیث کا مضمون رب کا،الفاظ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے۔خیال رہے کہ ساری حدیثیں برحق ہیں اور قرآن کی طرح لائق عمل،صدیق اکبر نے حدیث کی بنا پر (حضور صلی اللہ علیہ وسلم) کے مال میں تقسیم میراث نہ فرمائی حالانکہ یہ حکم قرآنی تھا،مگر حدیث قدسی میںقال اللّٰهکی تصریح ہوتی ہے۔اس کی مفصَّل بحث ہمارے رسالہ “ایک اسلام” میں دیکھو۔
۲؎ خیال رہے کہ جن و انس کے سوا کسی مخلوق میں کافر نہیں مگر انسان پر الله کے احسانات زیادہ ہیں کہ ان ہی میں انبیاء اور اولیاء بھیجے۔اس لیے کہ خصوصیت سے اس کی شکایت فرمائی گئی۔
۳؎ یعنی قیامت کا منکر ہے اور تمام ان آیتوں کو جھٹلاتا ہے جن میں قیامت کا ذکر ہے۔
۴؎ یعنی رب کے لیے ایجاد اور دوبارہ بنانا یکساں آسان ہے۔لوگوں پر ایجادمشکل ہوتی ہے۔دوبارہ بنانا آسان،جب کفار رب تعالٰی کو عالم کا موجد جانتے ہیں تو قیامت مانتے ميں انہیں کیوں موت آتی ہے۔حالانکہ قیامت میں اٹھانا اعادۂ خلق ہوگا۔نہ کہ ایجاد اس میں روئے سخن ان کافروں کی طرف ہے جو الله کی ذات و صفات کے اقراری تھے اور قیامت کے انکاری۔
۵؎ مشرکین عرب کا عقیدہ تھا کہ فرشتے الله کی بیٹیاں ہیں۔عیسائی عیسیٰ علیہ السلام کو،یہودی عزیر علیہ السلام کو الله کا بیٹا مانتے ہیں اس میں ان تینوں قوموں کی طرف اشارہ ہے۔بیوی بچے اختیارکرنا ہمارے لیے کمال ہے رب کے حق میں گالی۔ایک ہی چیز ایک کے لیے کمال ہے۔دوسرے کے لیے نقصان بلاتشبیہ کنواری لڑکی کو صاحب اولادکہنا گالی ہے،بیاہی کے لیے کمال،رب کی شان تو بہت اعلٰی ہے۔
۶؎ اولاد والا اکیلا بھی نہیں ہوتا، اولاد اس کی قومیت، نوعیت، جنسیت میں شریک ہوتی ہے اور بے نیازبھی نہیں کیونکہ انسان شہو ت کے غلبہ یا دشمنوں کے خوف کی وجہ سے یا اپنے مرے بعد وراثت کے لیے اولاد اختیار کرتاہے۔رب تعالٰی ان تمام نیازمندیوں سے پاک ہے۔دیکھو چاند،سورج وغیرہ کو قیامت سے پہلے فنا نہیں تو ان کی وراثت کے لیے انکی اولاد بھی نہیں۔
۷؎ حالانکہ اولاد باپ کی ہمسر ہوتی ہے کہ انسان کا بچہ انسان اور شیر کا بچہ شیر ہوتا ہے،تونعوذ باللّٰهِ !خدا کا بیٹا خدا ہی چاہیئے تھاحالانکہ رب اس کا خالق وہ مخلوق، رب مالک وہ مملوک، پھر ہمسر کہاں۔
مأخذ. کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:20
حدیث نمبر 20
24
Apr