قرآن و سنت کی اہمیت ( مشکوۃ)

حدیث نمبر 195

وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «كَلَامِيْ لَا يَنْسَخُ كَلَامَ اللهِ وَكَلَامُ اللهِ يَنْسَخُ كَلَامِيْ وَكَلَامُ اللهِ يَنْسَخُ بَعْضَهٗ بَعْضًا»
ترجمه حديث.
روایت ہے ان ہی سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا کلام اللہ کے کلام کو منسوخ نہیں کرتا ۱؎ اوراللہ کا کلام میرے کلام کو منسوخ کرتا ہے اوراللہ کا کلام بعض بعض کو منسوخ کرتاہے۲؎
شرح حديث.
۱؎ یعنی حدیث سے قرآن کی آیت تلاوۃً منسوخ نہیں ہوسکتی حکمًا بہت سی آیتیں احادیث سے منسوخ ہیں،چنانچہ حدیث “لا وصیۃ للوارث “سے وارث کے لیئے جواز وصیت ثابت کرنے والی آیات منسوخ ہیں۔ایسے ہی حضور کا فرمانا کہ انبیاء کی میراث نہیں بٹتی،حضور کے حق میں آیات میراث کی ناسخ ہے،سجدہ تعظیمی کا جواز قرآن سے ثابت ہے مگر حدیث سے منسوخ یا یہاں کَلَامِیْ سے مراد حضور کے اجتہادات ہیں یعنی میرا اجتہادی کلام حکم قرآنی کو منسوخ نہیں کرے گا لہذا حدیث واضح ہے۔
۲؎ خیال رہے کہ نسخ کی چار صورتیں ہیں:قرآن کا قرآن سے نسخ،جیسے کفار پر نرمی کی آیتیں آیات جہاد سے منسوخ ہیں،حدیث کا حدیث سے نسخ جیسے زیارۃ قبور ازروئے حدیث پہلے منع تھی پھر حدیث ہی نے اس کو جائز کیا،فرماتے ہیں”اَ لَافَزُوْرُوْھَا” قرآن کا نسخ حدیث سے،جیسے سجدہ تحیت حدیث کا نسخ قرآن سے،جیسے بیت المقدس کا قبلہ ہونا حدیث سے تھا اس کا نسخ قرآن سے ہوا کہ رب نے فرمایا:”وُجُوۡهکُمْ شَطْرَہٗ”۔اس کی پوری تحقیق ہماری”تفسیرنعیمی”پارہ سوم میں دیکھو۔
مأخذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:195