قرآن و سنت کی اہمیت ( مشکوۃ)

حدیث نمبر 194

عَن جَابِرٍ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ أَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنُسْخَةٍ مِنَ التَّوْرَاةِ فَقَالَ يَا رَسُوْلَ اللهِ هٰذِهٖ نُسْخَةٌ مِنَ التَّوْرَاةِ فَسَكَتَ فَجَعَلَ يَقْرَأُ وَوَجْهُ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَغَيَّرُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ ثَكِلَتْكَ الثَّوَاكِلُ مَا تَرٰى مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَظَرَ عُمَرُ إِلٰی وَجْهِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَعُوذُ بِاللهِ مِنْ غَضَبِ اللهِ وَغَضَبِ رَسُوْلِهٖ رَضِيْنَا بِاللّٰهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِيْنًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” وَالَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهٖ لَوْ بَدَا لَكُمْ مُوسٰی فَاتَّبَعْتُمُوْهُ وَتَرَكْتُمُوْنِيْ لَضَلَلْتُمْ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ وَلَوْ كَانَ حَيًّا وَأَدْرَكَ نُبُوَّتِيْ لَاتَّبَعَنِيْ)رَوَاهُ الدَّارمِيُّ
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت جابر سے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں توریت کا نسخہ لائے اور عرض کیا یارسولاللہ یہ توریت کا نسخہ ہے حضور خاموش رہے ۱؎ آپ پڑھنے لگے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور بدلنے لگا ابو بکر بولے کہ تمہیں رونے والیاں روئیں تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور کا حال نہیں دیکھتے ۲؎ تب حضرت عمر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہر ۂ انور دیکھا تو بولے میں اللہ اوررسول کے غضب سےاللہ کی پناہ مانگتا ہوں ہماللہ کی ربوبیت اسلام کے دین ہونے اور محمد مصطفے کے نبی ہونے سے راضی ہیں ۳؎ تب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی قسم جس کے قبضے میں محمدمصطفےٰ کی جان ہے اگر حضرت موسی آج ظاہر ہوجاویں اور تم ان کی پیروی کرو اور مجھے چھوڑ دو تو سیدھے راستے سے بھٹک جاؤ گے اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے ۴؎ اور میری نبوت پاتے تو میری پیروی کرتے ۵؎ (دارمی)
شرح حديث.
۱؎ یہ خاموشی ناراضی کی تھی کہ حضرت عمر یہود کے پاس کیوں جاتے ہیں اور توریت میں کیا ڈھونڈتے ہیں لیکن حضرت عمر سمجھے کہ یہ خاموشی اجازت کی ہے اس لیئے پڑھنا شروع کردیا لہذا فاروق اعظم کے اس فعل شريف پر کوئی اعتراض نہیں خطا اجتہادی معاف ہے۔
۲؎ بات یہ تھی کہ حضرت عمر کے ساتھ کاغذ تھے اور آپ پڑھنے میں مشغول تھے۔حضرت صدیق اکبر چہرۂ انور کو دیکھ رہے تھے،صدیق اکبر کا یہ کلام دعائے موت کے لیئے نہ تھا بلکہ محاورۂ عرب کے مطابق اظہار غضب کے لیئے تھا،آپ کی یہ ناراضی اس لیئے تھی کہ حضرت فاروق کا یہ فعل حضور کی تکلیف کا باعث تھا نفس کے لیئے نہ تھی حضور کے لیئے تھی،لہذا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ صحابہ آپس میں بغض رکھتے تھے۔
۳؎ حضرت فاروق اعظم ہمیشہ حضور کو راضی کرنے کے لیئے یہ کلمات ہی عرض کرتے تھے جس میں اپنی وفا داری کا اظہار ہے یعنی ہماری یہ خطامعاذ اللّٰه سرکشی کی بنا پر نہیں ہم تو پرانے آستانہ بوس ہیں بندۂ بے زر ہیں۔
۴؎ یعنی گمراہ ہوجاؤ گے اس سے چند مسئلے معلوم ہوئے:ایک یہ کہ اب تاقیامت ہدایت حضور کی پیروی میں منحصر ہے اگر اصلی توریت و انجیل مل جائے بلکہ خود توریت و انجیل والے نبی تشریف لے ائیں تب بھی ہدایت حضور ہی کے پاس ملے گی پچھلی آسمانی کتب پہلے ہدایت تھیں اب نہیں،چاند تارے اور چراغ رات کو روشنی دیتے ہیں دن میں نہیں،جوان آدمی گُھٹّی اور ماں کے دودھ سے زندہ نہیں رہ سکتا۔دوسرے یہ کہ قرآن و سنت کے سواء اور کتابوں سے ہدایت حاصل کرنا،انہیں پڑھنا ممنوع ہے۔تیسرے یہ کہ کوئی شخص اپنے ایمان پر اعتماد نہ کرے،ہر کتاب نہ پڑھے،ہر ایک کا وعظ نہ سنے،جب حضرت عمر جیسے صحابی کو توریت جیسی کتاب پڑھنے سے روک دیا گیا تو ہم کس شمار میں ہیں،۔ایمان کی دولت چورا ہے میں نہ رکھو،ورنہ چوری ہوجائے گی۔
۵؎ یعنی بظاہر زندہ ہوتے ورنہ حقیقتًا تو وہ زندہ ہیں۔(مرقاۃ)کیونکہ ان کا دین منسوخ ہوچکا اسی لیئے معراج کی رات سارے نبیوں نے ہمارے حضور کے دین کی نماز اقتدائے حضور میں ادا کی،موسی علیہ السلام خضر علیہ السلام کے پاس پہنچ کر توریت کے احکام جاری نہ فرماسکے اگرچہ توریت باقی تھی مگر حضرت خضر پر جاری نہ تھی۔
مأخذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:194