وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: مَنْ كانَ مُسْتَنًّا فَلْيَسْتَنَّ بِمَنْ قَدْ مَاتَ، فَإِنَّ الْحَيَّ لَا تُؤْمَنُ عَلَيْهِ الْفِتْنَةُ. أُولَئِكَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ -صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – كَانُوا أَفْضَلَ هٰذِهِ الأُمَّةِ، أَبَرَّهَا قُلُوبًا، وَأَعْمَقَهَا عِلْمًا، وَأَقَلَّهَا تَكَلُّفًا، اخْتَارَهُمُ اللّٰهُ لِصُحْبَۃِ نَبِيِّهٖ وَلإِقَامَةِ دِينِهٖ، فَاعْرِفُوْا لَهُمْ فَضْلَهُمْ، وَاتَّبِعُوهُمْ عَلٰی آثَارِهِمْ، وَتَمَسَّكُوا بِمَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ أَخْلَاقِهِمْ وَسِيَرِهِمْ، فَإِنُّهُمْ كَانُوْا عَلَى الْهُدَي الْمُسْتَقِيْمِ. رَوَاهُ رَزِينٌ.
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت ابن مسعود سے فرماتے ہیں ۱؎ جو سیدھی راہ جانا چاہے وہ وفات یافتہ بزرگوں کی راہ چلے ۲؎ کہ زندہ پر فتنہ کی امن نہیں ۳؎ وہ بزرگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہیں جو اس امت میں بہترین ۴؎ دل کے نیک علم کے گہرے اور تکلف میں کم تھے ۵؎اللہ نے انہیں اپنے نبی کی صحبت اور اپنے نبی کا دین قائم رکھنے کے لیے چن لیا۶؎ ان کی بزرگی مانو ان کے آثار قدم پر چلو بقدر طاقت ان کے اخلاق و سیرت کو مضبوط پکڑو کہ وہ سیدھی ہدایت پر تھے ۷؎(رزین).
شرح حديث.
۱؎ یہ حدیث موقوف ہے نہ کہ مرفوع یعنی حضرت ابن مسعود صحابی کا اپنا فرمان ہے صحابی کے قول وفعل حدیث موقوف کہلاتے ہیں حضور کا قول و فعل حدیث مرفوع۔
۲؎ یہ ترجمہ نہایت اعلٰی ہے اشعۃ اللمعات نے اسی کو اختیار فرمایا اس میں تابعین سے خطاب ہے یعنی تا قیامت جو کوئی سیدھی راہ چلنا چاہے وہ صحابہ کی پیروی کرے خود قرآن و حدیث سے استنباط مسائل پر قناعت نہ کرے اسی لیئے مجتہدین آئمہ صحابہ کے پیرو ہیں اس کی تائید وہ حدیث کرتی ہے کہ میرے صحابہ تارے ہیں جن کی پیروی کرو ہدایت پاجاؤ گے اور قرآن کریم کی یہ آیت”صِرٰطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیْھِمْ”خدایا ہمیں ان کی راہ چلا جن پر تو نے انعام کیا سب سے بڑے انعام والے صحابہ ہیں۔خیال رہے کہ یہاں زندوں سے مراد غیر صحابہ ہیں اور وفات پانے والوں سے سارے صحابہ زندہ ہوں یا وفات یافتہ۔جیسا کہ اگلے مضمون سے ظاہر ہے چونکہ اس وقت اکثر صحابہ وفات پاچکے تھے اس لیئے ایسا فرمایا لہذا حدیث پر یہ اعتراض نہیں کہ مرے ہوئے کافروں کی اتباع کرنی چاہیئے،زندہ اولیاء،علماءبلکہ صحابہ کی بھی اتباع درست نہیں۔مرقاۃ نے فرمایا یہ کلام حضرت ابن مسعود نے انکسارًا فرمایا ورنہ اس وقت آپ اور تمام زندہ صحابہ قابل اتباع تھے۔
۳؎ یہاں زندہ سے موجودہ تابعین مراد ہیں کیونکہ صحابہ سےاللہ رسول کا وعدہ جنت ہوچکا ہے رب نے فرمایا:”وَ اَلْزَمَہُمْ کَلِمَۃَ التَّقْوٰی”
ا ور فرمایا “اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوۡبَہُمْ لِلتَّقْوٰی “اور فرمایا:”وَ کَرَّہَ اِلَیۡکُمُ الْکُفْرَ وَ الْفُسُوۡقَ وَ الْعِصْیَانَ ” جس سے پتہ لگا کہ رب نے صحابہ کے لیئے ایمان لازم کردیا یا ان کے دلوں میں کفر اور فسق سے نفرت پیدا فرمادی خصوصًا حضرت ابن مسعود کو تو جنت کی بشارت دی جاچکی تھی۔خیال رہے کہ مرتد صحابی نہیں رہتا،ارتداد سے صحابیت ختم ہوجاتی ہے۔
۴؎ یعنی جن کی وفات ایمان پر ہوچکی ان کی صحابیت پختہ ہوگی۔اس سے معلوم ہوا کہ تمام اولیاء وعلماء ایک صحابی کی گرد قدم کو نہیں پہنچ سکتے،پھول کی صحبت میں تل مہک جاتا ہے،حضور کی صحبت میں دل کیوں نہ مہکے۔اس کی پوری تحقیق ہماری کتاب”امیرمعاویہ” میں دیکھو،پھربعض صحابہ بعض سے افضل ہیں،رب فرماتا ہے:”لَا یَسْتَوِیۡ مِنۡکُمْ مَّنْ اَنۡفَقَ مِنۡ قَبْلِ الْفَتْحِ”الایہ ۔فتح مکہ سے پہلے ایمان لانے والے صحابہ بعد کو ایمان لانے والے صحابہ سے افضل ہیں۔خیال رہے کہ صحابی وہ ہے جو بحالت ایمان و ہوش حضورکو دیکھے اور ایمان پر خاتمہ ہو۔
۵؎سبحان اللّٰه! یہ صحابہ کی صفات ہیں کہ وہ ہر طرح حضور کے مطیع،سارے علوم کے جامع،بناوٹ دکھلاوے سے پاک،ان میں سے ہر ایک مفسر،محدث،فقیہ،قاری،صوفی اور فرائض دان تھے۔اس کے باوجود ننگے پاؤں پھیر لیتے تھے،فرش خاک پر سو رہتے تھے،معمولی کھانوں پر گزارا کرلیتے تھے،بے علم فتوٰی دینے پر جرات نہ کرتے تھے،بدن کے فرشی تھے،روح کے عرشی،ظاہر میں خلق کے ساتھ تھے،باطن میں خالق کے پاس گودڑی میں لپٹے ہوئے لعل تھے۔
۶؎ حضور کی صحبت اکسیر کی تایثر رکھتی ہے اگر ان میں کچھ بھی خرابی ہوتی تو رب اپنے حبیب کو ان کے ساتھ نہ رکھتا،مہربان باپ اپنے عزیز بیٹے کے لیئے اچھے یار تلاش کرتا ہے۔رب تعالٰی نے اپنے حبیب کی صحبت کے لیئے اچھے صحابہ چنے،نیز موتی اچھے ڈبّے میں رکھا جاتا ہے،رب نے قرآن کی امانت اچھے سینوں میں رکھی،وہی حضرات قرآن و حدیث کے جامع،وہی ہم تک دین پہنچانے والے ہیں،رب نے ان کو ایمان کی کسوٹی بنایا کہ فرمایا “اٰمَنُوۡا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنۡتُمۡ بِہٖ فَقَدِ اهتَدَوۡا”اے صحابہ! جو تم جیسا ایمان لائے گا وہ ہدایت پائے گا۔خیال رہے کہ حضور نے مخلصین و منافقین کی چھانٹ خود کردی تھی سو رۂ توبہ کے نزول کے بعد منافق چھٹ گئے تھے۔جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے فرماتا ہے:”حَتّٰی یَمِیۡزَ الْخَبِیۡثَ مِنَ الطَّیِّب”۔
۷؎ جیسےاللہ کی اطاعت بغیر حضور کی پیروی ناممکن،ایسے ہی حضور کی پیروی بغیر صحابہ کی اتباع ناممکن ہے۔حضور آئینہ خدا نما ہیں اور صحابہ آئینہ رسول نما،سبحان اللّٰه! جب حضرت ابن مسعود جیسے عظیم الشان مؤمن صحابہ کی ایسی تعریف کررہے ہیں تو ان کی افضیلت میں کسے کلام ہوسکتا ہے،صحابہ کا انکار حقیقت میں حضور کے فیض کا انکار ہے کہ نعوذ باللّٰه حضور نے۲۳ سال کی تبلیغ میں صرف چار پانچ صحابی بنائے۔
مأخذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:193
حدیث نمبر 193
20
May