قرآن و سنت کی اہمیت ( مشکوۃ)

حدیث نمبر 184

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «إِنَّ الشَّيْطَانَ ذِئْبُ الْإِنْسَانِ كَذِئْبِ الْغَنَمِ يَأْخُذُ الشَّاذَّةَ وَالْقَاصِيَةَ وَالنَّاحِيَةَ وَإِيَّاكُمْ وَالشِّعَابَ وَعَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ وَالْعَامَّةِ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت معاذا بن جبل سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ شیطان آدمی کا بھیڑیا ہے جیسے بکریوں کا بھیڑیا الگ اور دور اور کنارے والی کو پکڑتا ہے ۱؎ تم گھاٹیوں سے بچو ۲؎جماعت مسلمین اور عوام کو لازم پکڑو۳؎(احمد)
شرح حديث.
۱؎شاذّہ:وہ بکری ہے جو اپنی ہم جنسوں سے متنفر ہو اور گلے سے دور رہے۔قاصیہ:وہ جو متنفر تو نہ ہو چرنے کے لیئے ریوڑ سے الگ ہوجائے۔ناحیہ:وہ جو ریوڑ سے الگ تو نہ ہو مگر کنارے کنارے چلے۔خلاصۂ تشبیہ یہ ہے کہ دنیا ایک جنگل ہے جس میں ہم لوگ مثل بکریوں کے ہیں،شیطان بھیڑیا ہے جو ہر وقت ہماری تاک میں ہے،جو جماعت مسلمین سے الگ رہا شیطان کے شکار میں آگیا۔
۲؎شِعَاب شُعْبَۃٌ کی جمع ہے،دو پہاڑیوں کے درمیان تنگ راستہ کو شعبہ کہتے ہیں،جہاں کیڑوں،مکوڑوں،ڈاکوؤں چوروں بلکہ جنات کا بھی خطرہ رہتا ہے،یہاں مسلمانوں کے وہ فرقے مراد ہیں جو اہل سنت والجماعت کے خلاف ہیں۔
۳؎ یعنی وہ عقائد اختیار کرلو جوعامۃ المسلمین کے ہوں کہ اسی جماعت میں اولیاءاللہ بھی ہیں،جھوٹی جماعتوں اور فرقوں سے الگ رہو۔اس کی تفسیر گزشتہ حدیث ہے کہ بڑے گروہ کی پیروی کرو اور وہ حدیث کہ جسے مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے۔الحمدللہ! ہمیشہ سے اہلِ سنت کی اکثریت رہی ہے اور ہے،عام مسلمان مقلد ہیں،بزرگوں کے معتقد ہیں،میلاد شریف فاتحہ کو اچھا جانتے ہیں،ان کے علاوہ ساری جماعتیں مل کربھی اہلِ سنت سے آدھی بھی نہیں لہذا اہل سنت ہی برحق ہیں جو ان سے ہٹے گا شیطان کا شکار ہوگا۔اس کی تفسیر پہلےبھی گزرگئی۔
مأخذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:184