قرآن و سنت کی اہمیت ( مشکوۃ)

حدیث نمبر 182

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” نَزَلَ الْقُرْآنُ عَلَى خَمْسَةِ أَوْجُهٍ: حَلَالٍ وَحَرَامٍ وَمُحْكَمٍ وَمُتَشَابِهٍ وَأَمْثَالٍ. فَأَحِلُّوا الْحَلَالَ وَحَرِّمُوا الْحَرَامَ وَاعْمَلُوا بِالْمُحْكَمِ وَآمِنُوا بِالْمُتَشَابِهِ وَاعْتَبِرُوا بِالْأَمْثَالِ”.هَذَا لَفْظُ الْمَصَابِيْحِ. وَرَواہُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الْاِيْمَانِ وَلَفْظُهٗ: «فَاعْمَلُوا بِالْحَلَالِ وَاجْتَنِبُوا الْحَرَامَ وَاتَّبِعُوا الْمُحْكَمَ»
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ قرآن پانچ قسموں پر اترا ۱؎ حلال حرام محکم اور متشابہ ۲؎ اور مثالیں لہذا حلال کو حلال جانو اور حرام کو حرام مانو محکم پر عمل کرو اور متشابہ پر ایمان لاؤ۳؎ مثالوں سے عبرت پکڑو ۴؎ یہ مصابیح کے الفاظ ہیں اور بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا جس کی عبارت یوں ہے کہ حلال پر عمل کرو اور حرام سے بچو اور محکم کی اتباع کرو۔
شرح حديث.
۱؎ بطریق اجمال ان کا ذکر فرمایا گیا ہے۔جیسے”اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ”یا”وَیُحَرِّمُ عَلَیۡہِمُ الْخَبٰٓئِثَ”ان دو آیتوں میں اجمالی طور پر سارے حلال و حرام کا ذکر آگیا ہے۔
۲؎ محکم کے اصطلاحی معنے ہیں ناقابل نسخ آیات مگر یہاں کھلی اور واضح آیتیں مراد ہیں کہ اس کے مقابل متشابہ فرمایا گیا۔متشابہ:وہ آیات ہیں جن کے معانی یا مراد سمجھ میں نہ آسکیں۔امثال سے گزشتہ امتوں کے قصے یا مثالیں مراد ہیں۔
۳؎ کہ جو کچھ متشابہ کی مراد ہے حق ہے ہمیں اگرچہ اس پر اطلاع نہیں۔
۴؎ کہ گزشتہ قوموں پر جن وجوہ سے عذاب آئے وہ تم چھوڑو دو۔اس سے قیاس شرعی کا ثبوت ہوا۔
مأخذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:182