ایمان و کفر کا بیان, باب الایمان(مشکوۃ)

حدیث نمبر 18

وَعَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَوْلَهُ عِصَابَةٌ مِنْ أَصْحَابِهٖ: بَايِعُوْنِيْ عَلٰی أَنْ لَا تُشْرِكُوْا بِاللّٰهِ شَيْئًا وَلَا تَسْرِقُوْا وَلَا تَزْنُوْا وَلَا تَقْتُلُوْا أَوْلَادَكُمْ وَلَا تَأْتُوْا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُوْنَهٗ بَيْنَ أَيْدِيْكُمْ وَأَرْجُلِكُمْ وَلَا تَعْصُوْا فِيْ مَعْرُوفٍ فَمَنْ وَفٰی مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذٰلِكَ شَيْئًا فَعُوقِبَ بِهٖ فِيْ الدُّنْيَا فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهٗ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذٰلِكَ شَيْئًا ثُمَّ سَتَرَهُ اللّٰهُ عَلَيْهِ فَهُوَ إِلٰی اللهِ إِنْ شَاءَ عَفَا عَنْهُ وَإِنْ شَاءَ عَاقَبَهُ فَبَايَعْنَاهُ عَلٰى ذٰلِكَ (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ)

روایت ہے عبادہ ابن صامت سے ۱؎ فرماتے ہیں کہ فرمایانبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حالانکہ آپ کے آس پاس صحابہ کی جماعت ۲؎ تھی کہ مجھ سے اس پر بیعت کرو۳؎کہ الله کےساتھ کسی کو شریک نہ کرنا،نہ چوری کرنا اور نہ زنا،نہ اپنی اولاد کو قتل کرنا،نہ اپنے سامنے گھڑا ہوا بہتان لگانا ۴؎ اور کسی اچھی بات میں نافرمانی نہ کرنا ۵؎ تم میں سے جو وفائے عہد کرے گا اس کا ثواب الله کے ذمہ کرم پر ہے ۶؎ اور جوان میں سے کچھ۷؎ کر بیٹھے اور دنیا میں سزا پالے تو وہ سزا کفارہ ہے ۸؎ اور جو ان میں سے کچھ کرلے،پھر رب اُس کی پردہ پوشی کرے۹؎ تو وہ الله کے سپرد ہے۔اگر چاہے معافی دے دے چاہے سزا دے۱۰؎ لہذا ہم نے اس پر آپ سے بیعت کی۔(مسلم، بخاری)
شرح حديث.
۱؎ آپ کا نام عبادہ،کنیت ابوالولیدہے،آپ نقیب الانصار ہیں،پہلی اور دوسری بیعت عقبہ میں شامل ہوئے،جمع قرآن کرنے والوں میں آپ بھی تھے،بدر اور تمام غزوات میں شریک رہے،عہدِ فاروقی میں شام کے قاضی رہے،حمّص مقام تھا،فلسطین کے مقام رملہ میں ۷۲ سال کی عمر پاکر۳۴ ہجری میں وفات پائی۔۲؎ عصابہ عصبہ سے بنا بمعنی مضبوطی۔اب دس سے چالیس تک کی جماعت کو عصابہ کہا جاتا ہے۔
۳؎ یہ بیعت تقویٰ ہے،یعنی آیندہ شرک،چوری،زنا وغیرہ نہ کرنا،ورنہ یہ جماعت صحابہ بیعت اسلام تو پہلے ہی کرچکی تھی۔آج کل جو مشائخ کے ہاتھ پر بیعت تقویٰ کی جاتی ہے اس کی اصل یہ حدیث ہےحضور نے صحابہ سے جہاد پربھی بیعت لی ہے۔
۴؎ چونکہ عرب میں یہ گناہ زیادہ مروج تھے،بلکہ زنا اور لڑکیوں کے زندہ دابنے پرفخر کیا کرتے تھے اس لئے حضور نے ان کی تاکیدی ممانعت فرمائی،چونکہ بہتان سن کر بھی لگایا جاتا ہے اور گڑھ کر بھی،گڑھا ہوا زیادہ جرم ہے اس لئے حضور نے ان کی تاکیدی ممانعت فرمائی۔بعض عورتیں دوسروں کا بچہ لے کر اپنے خاوند سےکہتی تھیں کہ یہ تیرا بچہ ہے جو میں نے جنا ہے۔اس فرمان میں اس جانب بھی اشارہ ہے تو سامنے سے مراد شرمگاہ ہے اس سے معلوم ہوا کہ نسب بدلنا سخت جرم ہے۔
۵؎ نہ میری نہ علماء کی نہ حکام نہ ماں باپ نہ شیخ کی جو بھی اچھی بات کا حکم دے اس کی بات مانو۔خیال رہے کہ حضور جو بھی حکم دیں وہ اچھا ہے،اگر نماز چھوڑنے کا حکم دیں تو اس وقت نماز پڑھنا حرام ہوجاتی ہے۔حضور کے احکام کی اطاعت مطلقًا واجب ہے،حضور کے مشورہ اور رائے پرعمل بہتر ہے لازم نہیں۔یہاں معروف کی قید حضور کے لئے واقعی ہے اور دوسروں کے لئے احترازی کیونکہ بُری بات میں بادشاہ وغیرہ کسی کی اطاعت نہیں۔
۶؎ اس میں ارشارۃً فرمایا گیا کہ ان اطاعتوں کا بدلہ دنیا میں ہی لوگوں سے نہ چاہو،اخلاص اختیار کروان شاء اللّٰهدنیا اور آخرت میں اجر پاؤ گے۔
۷؎کفر کے سوا کوئی اور جرم جس کی سزا شرعًا مقرر ہو جیسے زنا،چوری،شراب خوری یا مقرر نہ ہو تعزیر بھی ہو جیسے لواطت وغیرہ یا نہ ہو جیسے ترک نماز وغیرہ۔
۸؎ اکثر علماءفرماتے ہیں کہ حدود اورتعزیرات گناہ کا کفارہ بن جاتے ہیں جس کے بعد اس جرم کی سزاان شاء اللّٰه آخرت میں نہ ملے گی۔بعض نے فرمایا یہ سزائیں حق عبد کا کفارہ ہیں،حق الله تو بہ سے ہی معاف ہوگا،رب فرماتا ہے:”وَمَنۡ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوۡنَ” مگر حق یہ ہے کہ مجرم کا اپنے کو سزا کے لیے پیش کردینا ہی توبہ اور کفارہ ہے۔
۹؎ اس میں اشارۃً فرمایا گیا کہ کوئی شخص اپنے چھپے گناہ کو ظاہر نہ کرے حق عبد ضرور ادا کردے۔
۱۰؎ اس میں اس آیت کی طرف اشارہ ہے:”اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنۡ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ“یعنی کفر پر مرنے والی کی بخشش نہیں باقی تمام گنہگاروں کے لیے گنجائش ہے۔
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:18