قرآن و سنت کی اہمیت ( مشکوۃ)

حدیث نمبر 171

وَعَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله -صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: “لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي كَمَا أَتَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمُّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذٰلِكَ، وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيْلَ تَفَرَّقَتْ عَلٰی اِثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلٰى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةٍ، كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً”، قَالُوا: وَمن هِيَ يَا رَسُولَ الله؟ قَالَ: “مَا أَنَا عَلَيْهِ وأَصْحَابِيْ”. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ
وَفِي رِوَايَةِ أَحْمَدَ وَأَبِي دَاوٗدَ عَنْ مُعَاوِيَةَ: «ثِنْتَانِ وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ وَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ وَهِيَ الْجَمَاعَةُ وَإِنَّهُ سَيَخْرُجُ فِي أُمَّتِيْ أَقْوَامٌ تَتَجَارٰى بِهِمْ تِلْكَ الْأَهْوَاءُ كَمَا يَتَجَارٰى الْكَلْبُ بِصَاحِبِهٖ لَا يَبْقٰى مِنْهُ عِرْقٌ وَلَا مَفْصِلٌ إِلَّا دَخَلَهٗ»
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت عبداللہ ابن عمرو سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ میری امت پر بعینہ ویسے حالات آئیں گے جیسے بنی اسرائیل پر آئے جیسے جوتی کی جوتی سے برابری ۱؎ حتی کہ اگرکسی نے اپنی ماں سے اعلانیہ زنا کیا تو میری امت میں بھی وہ ہوگا جو ایسا کرے گا ۲؎ یقینًا بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جاوے گی۳؎ سوا ایک ملت کے سب دوزخی لوگوں نے پوچھا یارسولاللہ وہ ایک کون فرقہ ہے فرمایا وہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں ۴؎ اسے ترمذی نے روایت کیا۔.
شرح حديث.
۱؎ سبحان اللّٰهِ! اس مطلع الغیوب محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسی صحیح خبر دی اور کیسی نفیس تشبیہ سے سمجھایا کہ جیسے داہنے پاؤں کی جوتی بائیں پاؤں کی جوتی سے لمبائی،چوڑائی،شکل و صورت میں یکساں ہوتی ہے ایسے ہی میری امت کے ظاہری و باطنی حالات،عقائد و اعمال بنی اسرائیل کی طرح ہوجائیں گے۔
۲؎ یہ اعمال کی برابری کا ذکر ہے کہ بدتر سے بدتر گناہ بھی میری امت کے اندر پایا جائے گا۔ہم نے دیکھا کہ انگریزوں کی داڑھیاں منڈیں،مونچھیں بڑھیں،مسلمانوں کی بھی ایسی ہی شکل بن گئی،پھر انگریزوں نے ناک کے نیچی مونچھ مکھی کی طرح رکھی مسلمان بھی اس ہی پر عامل ہوگئے۔پھر دور آیا کہ داڑھی کے ساتھ مونچھ کی بھی بالکل صفائی ہوگئی،تو مسلمان بھی ایسے ہی ہوگئے۔اگر کوئی انگریز ناک کٹالیتا تو یقینًا مسلمانوں میں صد ہاناک کٹ جاتے۔یہ اسی حدیث کا ظہور ہے۔
۳؎ اس طرح کہ بنی اسرائیل کے سارے۷۲فرقے گمراہ ہوگئے مگر مسلمانوں میں۷۲فرقے گمراہ ہوں گے اور ایک ہدایت پر۔خیال رہے کہ جیسے بعض بنی اسرائیل نبیوں کے دشمن ہیں ایسے ہی مسلمانوں میں بعض فرقے دشمن سیدالانبیاء ہیں اور جیسے بعض بنی اسرائیل انبیاءکو خدا کا بیٹا مان بیٹھےمسلمانوں میں بھی بعض جاہل فقیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عین خدا،جز خدا مانتے ہیں۔غرض اس حدیث کا ظہور یوں پوری طرح ہورہا ہے۔
۴؎ یعنی میں اورمیرے صحابہ ایمان کی کسوٹی پر ہیں جس کا ایمان ان کاساہو وہ مؤمن ماسوائے بے دین۔رب تعالٰی فرماتا ہے:”فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْاۚ-“۔خیال رہے کہمَاسے مراد عقیدے اور اصول اعمال ہیں نہ کہ فروعی افعال،یعنی جن کے عقائد صحابہ کے سے ہوں اور ان کے اعمال کی اصل عہد صحابہ میں موجود ہو وہ جتنی ورنہ فروع ا عمال آج لاکھوں ایسے ہیں جو زمانہ صحابہ میں نہ تھے ان کے کرنے والے دوزخی نہیں۔صحابہ کرام حنفی،شافعی یا قادری نہ تھے ہم ہیں۔انہوں نے بخاری مسلم نہیں لکھی تھی،مدرسۂ اسلامی نہ بنائے تھے،ہوائی جہازوں اور راکٹوں سے جہاد نہ کئے تھے۔ہم یہ سب کچھ کرتے ہیں لہذا یہ حدیث وہابیوں کی دلیل نہیں بن سکتی کہ عقائد وہی صحابہ والے ہیں اور ان سارے اعمال کی اصل وہاں موجود ہے۔غرضیکہ درخت اسلام عہد نبوی میں لگا عہد صحابہ میں پھلا پھولا قیامت تک پھل آتے رہیں گے کھاتے رہوبشرطیکہ اسی درخت کے پھل ہوں۔.
مأخذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:171