وَعَنْ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ الْمُزَنِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «مَنْ أَحْيَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِيْ قَدْ أُمِيْتَتْ بَعْدِيْ فَإِنَّ لَهٗ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلَ أُجُورِ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا وَمَنِ ابْتَدَعَ بِدْعَةً ضَلَالَةً لَا يَرْضَاهَا اللّٰهُ وَرَسُولُهُ كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ عَمِلَ بِهَا لَا يَنْقُصُ ذٰلِكَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْئًا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ.
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت بلال ابن حارث مزنی سے ۱؎ فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جو میری مردہ سنت کو جو میرے بعد فنا کردی گئی زندہ کرے ۲؎ اسے ان تمام کی برابر ثواب ہوگا جو اس پر عمل کریں اس کے بغیر کہ ان عاملوں کے ثواب سے کچھ کم ہو ۳؎ اور جو گمراہی کی بدعت ایجاد کرے جس سےاللہ رسول راضی نہیں ۴؎ اس پر ان سب کی برابر گناہ ہوگا جو اس پر عامل ہوں اور یہ ان کے گناہوں سے کچھ کم نہ کرے گا اسے ترمذی نے روایت.
شرح حديث.
۱؎ آ پ صحابی ہیں، ۵ ھ میں وفد مدینہ میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام لائے،۸۰سال کی عمر پاکر ۶۰ ھ میں وفات پائی،مدینہ منورہ کے پاس مقام ستغری میں قیام تھا۔
۲؎ یعنی جس سنت کو لوگوں نے چھوڑ دیا ہو اس پر خود بھی عمل کرے اور دوسروں کو بھی عمل کی رغبت دلائے جیسے زمانۂ موجودہ میں داڑھی رکھنا۔
۳؎ کیونکہ یہ الله کا بندہ اس سنت کے زندہ کرنے میں لوگوں کے طعنے اور مذاق برداشت کرتا ہے،سنت کی خاطرسب سختیاں جھیلتا ہے،لہذا بڑا غازی ہے۔جو بھلائی کے موجد کو ثواب ملتا ہے وہی بھلائی کے پھیلانے والے کو۔
۴؎ یہاں بدعت موصوف ہے اور ضلالت صفت اور جب نکرہ نکرے کی صفت ہو تو تخصیص کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔یہاں ضلالت کی قید بدعت حسنہ کو نکالنے کے لیئے ہے۔(مرقاۃ)یعنی بری بدعتوں کا موجد مجرم ہے جیسے اردو میں نماز و اذان یا اور تمام خلاف سنت کام۔اور اچھی بدعتوں کا موجد ثواب کا مستحق ہے جیسے علم صرف ونحو کے موجد،اسلامی مدرسے،عرس بزرگان،میلاد شریف اور گیارہویں شریف اور گیارہویں شریف کی مجالس کے موجد،اس کی بحث پہلےگزر چکی یہ حدیث تقسیم بدعت کی اصل ہے اس کا ذکر”کتاب العلم” میں بھی آئے گا۔
مأخذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:168
حدیث نمبر 168
20
May