قرآن و سنت کی اہمیت ( مشکوۃ)

حدیث نمبر 165

وَعَنْهُ: قَالَ: صَلّٰی بِنَا رَسُولُ اللهِ -صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – ذَاتَ يَوْمٍ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهٖ فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيْغَةًذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ، وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُوْلَ اللهِ كَأَنَّ هٰذِهٖ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَأَوْصِنَا، فَقَالَ: “أُوصِيْكُمْ بِتَقْوَى اللهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِوَإِنْ كَانَ عَبْدًا حَبَشِيًّا، فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِيْ فَسَيَرٰى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِيْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّيْنَ، تَمَسَّكُوْا بِهَا وَعَضُّوْا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ”. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ إِلَّا أَنَّهُمَا لَمْ يَذْكُرَا: الصَّلَاةَ.
ترجمه حديث.
روایت ہے انہیں سے فرماتے ہیں کہ ایک دن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی پھر ہماری طرف چہرہ کیا اورنہایت ہی بلیغ وعظ فرمایا جس سے اشک رواں ہوگئے دل ڈر گئے ۱؎ ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ شاید یہ الوداعی وعظ ہے ۲؎ لہذا کچھ وصیت فرمادیں حضور نے فرمایا کہ میں تمہیں اللہ سے ڈرنے،سلطان کی سننے،فرماں برداری کرنے کی وصیت کرتا ہوں اگرچہ حبشی غلام ہی ہو ۳؎ کیونکہ میرے بعد تم میں سے جو جیئے گا وہ بڑا اختلاف دیکھے گا ۴؎ لہذا تم میری اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت مضبوط پکڑو ۵؎ اسے دانت سے مضبوط پکڑلو نئی باتوں سے دور رہو کہ ہرنئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۶؎ اسے احمد،ابوداؤد اورترمذی وابن ماجہ نے رویات کیا لیکن ان دونوں نے نماز کا واقعہ ذکر نہ کیا۔
شرح حديث.
۱؎ یوں توحضور کے تمام وعظ ہی مؤثر ہوتے تھے لیکن خصوصیت سے یہ وعظ بہت پرتاثیرتھا۔جس میں عشق خدا،خوف کبریا کا دریا موجیں مار رہا تھا۔عشق سے آنسو بہے اورخوف سے دل ڈرے،بلیغ سے پرتاثیر مراد ہے۔
۲؎ یعنی حضور کی وفات قریب ہے،اور آپ ایسی باتیں فرمارہے ہیں جیسی رخصت ہوتے وقت کی جاتی ہیں گویا آپ اپنی امت کو چھوڑ کر جارہے ہیں اور آخری نصیحتیں کررہے ہیں ۔سبحان الله!صحابہ کرام کی ذکاوت کے قربان۔معلوم ہوتا ہے کہ واقعی حضور کی وفات قریب تھی اس لیئے ان کے کلام کی تردید نہ فرمائی گئی بلکہ خواہش پوری کردی گئی،پتہ لگا کہ حضور اپنے وقت وفات کو جانتے ہیں اور یہ ایسا جامع کلام ہے کہ سارے احکام اس میں آگئے۔تَقْوَی الله میں سارے دینی احکام اور سلطان کی اطاعت میں سارے سیاسی احکام شامل ہیں۔
۳؎ یعنی اگر تمہارا امیر کالا حبشی غلام ہو تب بھی اس کی اطاعت کرو اس کا نسب و شکل نہ دیکھو اس کا حکم سنو۔خیال رہے کہ خلافت قریش سے خاص ہے مگر امارت ہر مسلمان کو مل سکتی ہے،لہذا یہ حدیث کے اس حدیث کے خلاف نہیں”اَلْخِلَافَۃُ لِلْقُرَیْش“نیز امیر کی اطاعت انہی احکام میں ہوگی جو خلاف شرع نہ ہوں،نیز اس کی اطاعت امیر بن جانے کے بعد ہوگی،یزید امیر بنا ہی نہ تھا،حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اسے حاکم مانا ہی نہیں۔لہذا آپ کا عمل اس حدیث کے خلاف نہیں،امیر بنانا اور ہے اور امیر بن چکنے کے بعد اطاعت کرنا کچھ اور۔
۴؎ سیاسی اختلاف بھی اور مذہبی بھی۔چنانچہ خلافت عثمانیہ کے آخر میں لوگوں میں سیاسی اختلاف پیدا ہوگیا اور خلافت حیدری میں سیاسی اختلاف کے ساتھ مذہبی اختلاف بھی رونما ہوگیا کہ جبریہ،قدریہ،رافضی،خارجی پیدا ہوگئے۔خیال رہے کہ خدا کے فضل سے صحا بہ میں دینی اختلاف نہ ہوا،سارے صحابہ حق پر رہے،حضور کا یہ کلمہ بہت جامع ہے اور آپ کی یہ پیشن گوئی ہو بہو صحیح ہوئی۔
۵؎ ہر سنت لائق اتباع ہے مگر ہر حدیث لائق اتباع نہیں،حضور کے خصوصیات،منسوخ احکام اور اعمال حدیث ہیں مگر سنت نہیں اسی لیئے یہاں حدیث کو پکڑ نے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ سنت کو۔الحمد لِلّٰهِ ! ہم اہل سنت ہیں دنیا میں اہل حدیث کوئی نہیں ہوسکتا۔صحابہ کرام کے اعمال و افعال بھی لغوی معنے سے سنت ہیں یعنی دین کا اچھا طریقہ اگرچہ ان کی ایجادات بدعت حسنہ ہیں،عمر فاروق نے جماعت کی باقاعدہ تراویح کو جو آپ نے جاری کی تھی بدعت فرمایا کہ کہانِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ آپ کا وہ کلام اس حدیث کے خلاف نہیں کیونکہ وہ شرعًا بدعت ہے لغۃً سنت اور مسلمانوں کے واسطے لازم العمل۔خیال رہے کہ تمام صحابہ ہدایت کے تارے ہیں،خصوصًاخلفائے راشدین۔لہذا یہ حدیث اس کے خلاف نہیں کہ “اَصْحَابِی کَالنُّجُوْمِ“تمام صحابہ کی پیروی باعث نجات ہے۔
۶؎ یہاں نئی چیز سے مراد نئے عقیدے ہیں جو اسلام میں حضور کے بعد ایجاد کیئے جائیں،اس لیئے کہ یہاں اسے گمراہی کہا گیا۔گمراہی عقیدہ میں ہوتی ہے نہ کہ اعمال میں لہذا یہ حدیث اپنے عموم پر ہے۔چنانچہ قادیانی،چکرالوی،رفض و خروج یہ تمام بدعات اور گمراہی ہیں اور اگر اس سے نئے اعمال مراد لیئے جائیں تو یہ حدیث عام مخصوص البعض ہے،یعنی ہر بری بدعت گمراہی ہے۔بدعت حسنہ کبھی مباح،کبھی مستحب،کبھی واجب اور کبھی فرض بھی ہوتی ہے۔حدیث کی کتب اور قرآن کے پارے بدعت ہیں مگر اچھے ہیں۔اس کی تحقیق پہلے کی جاچکی ہے۔
مأخذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:165