وَعَنِ الْمِقدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَلا إِنِّيْ أُوتِيْتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهٗ أَلَا يُوشِكُ رَجُلٌ شَبْعَانٌ عَلٰی أَرِيكَتِهٖ يَقُولُ: عَلَيْكُمْ بِهٰذَا الْقُرْآنِ، فَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَلَالٍ فَأَحِلُّوهُ، وَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ، وَإِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللهِ كَمَا حَرَّمَ اللّٰهُ ، أَلَا لَا يَحِلُّ لَكُمْ الْحِمَارُ الأَهْلِيُّ، وَلَا كُلُّ ذِيْ نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ، وَلَا لُقْطَةُ مُعَاهَدٍ إِلَّا أَنْ يَسْتَغْنِيَ عَنْهَا صَاحِبُهَا وَمَنْ نَزَلَ بِقَوْمٍ فَعَلَيْهِمْ أَنْ يَقْرُوْهُ، فَإِنْ لَمْ يَقْرُوْهُ فَلَهٗ أَنْ يُعْقِبَهُمْ بِمِثْلِ قِرَاهُ، رَوَاهُ أَبُو دَاوٗدَ، وَرَوَى الدَّارِمِيُّ نَحْوَهُ، وَكَذٰا ابْنُ مَاجَهْ إِلٰى قَوْلِهٖ: كَمَا حَرَّمَ اللّٰهُ
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت مقدام ابن معد یکرب سے ۱؎ فرماتے ہیں فرمایا رسولاللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگاہ ہو کہ مجھے قرآن بھی دیا گیا اور اس کے ساتھ اس کا مثل بھی ۲؎ خبردار قریب ہے کہ ایک پیٹ بھرا اپنی مسہری پر کہے ۳؎ کہ صرف قرآن کو تھام لو اس میں جو حلال پاؤ اسے حلال جانو اور جو حرام پاؤ اسے حرام سمجھو۴؎ حالانکہ رسول اللہ کا حرام فرمایا ہوا ویسا ہی حرام ہے جیسا کہ اللہ کا حرام فرمودہ ۵؎ دیکھو تمہارے لیے نہ تو پلاؤ گدھا حلال ہے اور نہ کوکیلی والا درندہ جانور نہ عہد والے کافر کی گمی ہوئی چیز مگر جب اس کا مالک اس سے لاپرواہ ہوجائے ۶؎ اور جو کسی قوم کے پاس مہمان جائے ان پر اس کی مہمانی ہے اگر مہمانداری نہ کریں تو وہ اپنی مہمانی کی بقدر ان سے وصول کرلے ۷؎ اسے ابوداؤد نے روایت کیا دارمی نےبھی اسی طرح اور ابن ماجہ نےحَرَّمَ اللهُ تک۔.
شرح حديث.
۱؎ آپ صحابی ہیں،قبیلہ بنی کندہ سے تعلق رکھتے ہیں،کندی وفد کے ساتھ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے، ۸۷ھمیں سام میں وفات پائی ۹۱سال عمر ہوئی۔
۲؎ یعنی حدیث شریف جو قرآن کی طرح وحی الٰہی ہے اور اسی کی طرح واجب الاتباع۔اس حدیث کی تائید قرآن شریف کی اس آیت سے ہے:”وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ“کتاب تو قرآن حکیم ہے اور حکمت حدیث شریف۔خیال رہے کہ قرآن شریف کی عبارت بھی وحی ہے اورمضامین بھی مگر حدیث شریف کا مضمون وحی ہے الفاظ حضور کے اپنے اسی لیئے الفاظ حدیث پر قرآن کے احکام جاری نہیں کہ اس کی تلاوت نماز میں نہیں ہوسکتی،بے وضو اسے چھوسکتا ہے۔اسی لیئے قرآن کو وحی متلو کہتے ہیں اور حدیث کو غیر متلو۔مرقاۃ میں ہے کہ جبریل امین حدیث کوبھی لےکر اترتے تھے،اس کی تحقیق کے لیئے ہماری کتاب “ایک اسلام”دیکھو۔
۳؎ یہ کلمہ”اَلَا منکرین”حدیث پر اظہار غضب کے لیئے ہے اسی لیئے ہمارے امام اعظم فرماتے ہیں کہ حدیث ضعیف کے ہوتے ہوئے قیاس جائز نہیں،حدیث ضعیف کو قیاس قوی پر ترجیح ہے اگرچہ اس منکر حدیث کی پیدائش ۱۳ سو برس کے بعد ہوئی مگرحضور کی نگاہوں سے قریب تھا اس لیئے یُوْشِكَ فرمایا،شَبْعَانٌ(پیٹ بھرا)میں اس کی مالداری اور مسہری میں اس کا لنگڑا ہونا بتایا گیا۔
۴؎ یعنی اپنی تحقیق پر اعتماد کرو،صاحب قرآن سے الگ ہوجاؤ یہ بکواس ہی تمام بے دینوں کی جڑ ہے۔
۵؎ یعنی حرام قطعی واجب الترکاسی لیئے صحابہ کرام حضور کے فرمان پر قرآن کی طرح عمل کرتے تھے ہم پر جیسے نماز فرض ہے ایسے ہی نماز کی تعداد اور مقدار یعنی پانچ نمازیں اور ہر نماز میں مقرر رکعات فرض ہیں ہم جو کبھی حدیث کو ظنی کہتے ہیں اس کی وجہ اسنادیں ہیں۔جنہوں نے خود حضور سے حدیثیں سنیں ان کے لیئے قرآن کی طرح قطعی تھیں،دیکھو صدیق اکبرنے حدیث کی بنا پر حضور کی میراث تقسیم نہیں کی حالانکہ تقسیم میراث حکم قرآنی ہے۔
۶؎ یعنی منکرین حدیث کو چاہیے کہ گدھا بھی کھائیں،کتے بلوں پر بھی ہاتھ صاف کریں،پڑی ہوئی چیزبھی قبضہ میں کرلیا کریں،کیونکہ انہیں قرآن نے حرام نہیں کیا بلکہ حدیث نے کیا ہے۔ان شاءالله اس کا جواب قیامت تک ان سے نہ بنے گا۔
مسئلہ:پڑی ہوئی چیز جو ملے اس کے مالک کو تلاش کرکے پہنچادی جائے مسلمان کی ہو یاکسی ذمہ والے کافر کی،حربی کافر کا مال جو بغیر دھوکہ دہی کے ملے حلال ہے جب مالک کے ملنے سے مایوسی ہوجائے تو خیرات کردی جائے اور اگر اٹھانے والاغریب ہو تو خود استعمال کرے۔اس کے بقیہ مسائل کتب فقہ میں ملاحظہ کرو۔
۷؎ یعنی یہ مسئلہ بھی قرآن میں نہیں ہے حدیث میں ہے۔خیال رہے کہ اس زمانہ میں دیہاتی کفار سے یہ عہدلیا جاتا تھا کہ اگر لشکر اسلام یا کوئی مسلمان تمہارے گاؤں پر گزرے تو تم اسے ایک دو وقت کا راشن دینا۔اس معاہدے کے ماتحت لشکر اسلام کو اپنا راشن ان سے وصول کرنے کا حق تھا،حدیث میں اسی کا ذکر ہے اب بھی بعض ہنگامی حالات میں لشکریا پولیس کا خرچ اہل شہر پر ڈال دیا جاتا ہے۔اس جملے کی اور تفسیریں بھی کی گئی ہیں مگر یہ تفسیر زیادہ قوی ہے اس صورت میں یہ حدیث غیرمنسوخ ہے اب بھی اگر کفار سے یہ معاہدہ ہوجائے تو ان پر اس کی پابندی لازم ہوگی۔
مأخذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:163
حدیث نمبر 163
18
May