قرآن و سنت کی اہمیت ( مشکوۃ)

حدیث نمبر 161

عَنْ رَبِيعَةَ الجُرَشِيِّ قَالَ: أُتِي نَبِيُّ الله صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقِيْلَ لَهٗ: لِتَنَمْ عَيْنُكَ وَلْتَسْمَعْ أُذُنُكَ وَلْيَعْقِلْ قَلْبُكَ، قَالَ: فَنَامَتْ عَيْنَايَ وَسَمِعَتْ أُذُنايَ وَعَقَلَ قَلْبِي، قَالَ: فَقِيلَ لِي سَيِّدٌ بَنَى دَارًا فَصَنَعَ فِيهَا مَأْدُبَةً، وَأَرْسَلَ دَاعِيًا، فَمَنْ أَجَابَ الدَّاعِيَ دَخَلَ الدَّارَ، وَأَكَلَ مِنَ الْمَأْدُبَةِ، وَرَضِيَ عَنْهُ السَّيِّدُ، وَمَنْ لَمْ يُجِبِ الدَّاعِيَ لَمْ يَدْخُلِ الدَّارَ، وَلَمْ يَأْكُلْ مِنَ الْمَأْدُبَةِ، وَسَخِطَ عَلَيْهِ السَّيِّدُ، قَالَ: فَاللّٰهُ السَّيِّدُ، وَمُحَمَّدٌ الدَّاعِيْ، وَالدَّارُ الْإِسْلَامُ، وَالْمَاْدُبَةُ الْجَنَّةُ; رَوَاهُ الدَّارمِيُّ
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت ربیعہ جرشی سے ۱؎ فرماتے ہیں حضور کی خدمت میں آنے والا آیا اور حضور سے کہا گیا کہ مناسب ہے کہ آپ کی آنکھیں تو سوجائیں آپ کے کان سنتے اور دل سمجھتا رہے ۲؎ فرماتے ہیں کہ میری آنکھیں سو گئیں اور کان سنتے رہے دل سمجھتا رہا ۳؎ فرماتے ہیں مجھ سے کہا گیا کہ سردار نے گھر بنایا وہاں خوان تیار کیا اور بلانے والا بھیجا تو جس نے بلانے والے کی دعوت قبول کی وہ گھر میں آیا خوان سے کھایا اس سے سردار راضی ہوا ۴؎ اور جس نے منادی کی نہ مانی وہ نہ گھر میں آیا نہ اس نے خوان سے کھایا آقا اس پر ناراض ہوئے ۵؎ فرمایا کہ اللہ سید ہے اور محمد بلانے والے گھر اسلام ہے اور خوان جنت ۶؎ (دارمی)
شرح حديث.
۱؎ آپ کا نام ربیعہ ابن عمرو ہے۔یمن کے علاقہ میں مقام جرش کے رہنے والے ہیں،امیر معاویہ کے زمانہ میں ناسک کے مفتی رہے ہیں،ان کی صحابیت میں اختلاف ہے،مگر صحیح یہ ہے کہ آپ صحابی ہیں۔
۲؎ یعنی حضور بیدار تھے،ایک فرشتہ نے آکر یہ عرض کیا ان کلمات سے حضور پر نیند طاری ہوگئی،پھر خواب میں وہ کلام ہوا جو آگے آرہا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کے بعض کلمے ہم کو سلا دیتے ہیں،بعض کلمے ہم کو موت دیتے ہیں،صور کی آواز سب کو زندہ کرے گی۔حدیث اپنے ظاہر پر ہے کسی تاویل کی ضرورت نہیں،یہ بھی معلوم ہوا کہ حضو کی نیند غفلت نہیں پیدا کرتی اسی لیئے سونے سے آپ کا وضو نہیں جاتا اور آپ کی خواب وحی الٰہی ہے،فرشتہ نے سلا کر یہ گفتگو اسی لیئے کی تاکہ پتہ لگے اور لوگ حضور کی خواب پر ایمان لائیں۔
۳؎ یعنی فرشتے کی اس گفتگو کا مجھ پر یہ اثر ہوا کہ میں سوگیا جیسے ماں کی لوری سے بچے کو نیند آتی ہے یا بعض چیزوں کے دیکھنے سے غشی طاری ہوجاتی ہے۔
۴؎ یعنی منادی کی بات مان لینے سے تین فائدے ہوئے:گھر کی سیر،نعمتیں کھانا،بادشاہ کی خوشنودی،یہ ساری بہار اس منادی کے دم سے ہے۔
۵؎ یعنی نہ ماننے والے کا دین بھی تباہ،دنیا برباد،کھانے سے محرومی رہی،بادشاہ کی مخالفت گلے پڑی۔
۶؎ اس سے چند مسئلے معلوم ہوئے:ایک یہ کہاللہ کو سید کہہ سکتے ہیں بمعنی مالک،مولیٰ۔دوسرے یہ کہ کوئی شخص صرف اعمال سے خدا کو راضی نہیں کرسکتا جب تک کہ حضور کی غلامی نہ کرے۔تیسرے یہ کہ صرف اسلام ہی ذریعہ نجات ہے۔بعض جاہلوں نے کہا ہے کہ جس دین میں رہ کر نیکیاں کرلی جائیں نجات ہوجائے گی،وہ اس حدیث کے بھی خلاف ہے اور قرآن کے بھی،رب تعالٰی فرماتا ہے:”وَمَنۡ یَّبْتَغِ غَیۡرَ الۡاِسْلٰمِ دِیۡنًا فَلَنۡ یُّقْبَلَ مِنْہُ“کیونکہ اس حدیث میں جنت کو اسلام میں دکھایا گیا ہے۔
مأخذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:161