قرآن و سنت کی اہمیت ( مشکوۃ)

حدیث نمبر 155

وَعَنْهُ قَالَ: كَانَ أَهْلُ الْكِتَابَ يَقْرَؤُوْنَ التَّوْرَاةَ بِالْعِبْرَانِيَّةِ وَيُفَسِّرُونَهَا بِالْعَرَبِيَّةِ لأَهْلِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : “لَا تُصَدِّقُوْا أَهْلَ الْكِتَابِ وَلَا تُكَذِّبُوهُمْ، وَ {قُولُوْا آمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا} ” الآيَة. رَوَاهُ البُخَارِيُّ
ترجمه حديث.
روایت ہے انہیں سے فرماتے ہیں کہ اہل کتاب مسلمانوں کے سامنے عبرانی زبان میں توریت پڑھ کر عربی میں ترجمہ کرتے تھے تب حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اہل کتاب کو نہ سچا کہو نہ جھوٹا ۱؎ یہ کہہ دو کہ ہماللہ پر اور اس پر ایمان لائے جو ہماری طرف اتارا گیا ہے۲؎(بخاری)
شرح حديث.
۱؎ یہاں توریت کی وہ آیتیں مراد ہیں جن کا سچ اورجھوٹ ظاہر نہ ہو ورنہ اگر اہل کتاب حضرت مسیح یاحضرت عزیر کی الوہیت کی آیتیں پیش کریں تو یقینًا جھوٹی کہی جائیں گی۔منشائے حدیث یہ ہے کہ توریت و انجیل کچھ صحیح بھی تھیں،کچھ ملاوٹی بھی لہذا ہر آیت میں سچ جھوٹ کا احتمال تھا،اسی لئے احتیاطًا یہ حکم دیا گیا۔خیال رہے کہ اب ان کتابوں کی ایک بھی اصلی آیت موجود نہیں یہ ترجمے کلام الٰہی نہیں ہیں۔
۲؎ تاکہ اصل کتاب کا انکار نہ ہوجائے اور نہ غیر کتاب کا اقرار۔خیال رہے کہ یہ حکم اولًا تھا بعد میں تو حضور نے عمر فاروق جیسے صحابی کو توریت پڑھنے سننے سے ہی منع فرمادیا اور فرمایا کہ میرے پاس کیا نہیں ہے جو تم توریت میں ڈھونڈتے ہو اگر موسیٰ علیہ السلام بھی موجود ہوتے تو میری پیروی کرتے۔
مأخذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:155