وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: تَلَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الَّذِيْ أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ وَقَرَأَ إِلٰى وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : “فَإِذَا رَأَيْتَ وَعِنْدَ مُسْلِمٍ: رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ فَأُولٰئِكَ الَّذِينَ سَمَّاهُمُ اللّٰهُ فَاحْذَرُوهُمْ”. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت عائشہ سے فرماتی ہیں کہ رسولاللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت تلاوت کی کہ وہ رب وہ ہے جس نے تم پر کتاب اتاری جس میں واضح آیات ہیں ۱؎ اورمَا يَذَّكَّرُ الآیہ تک پڑھی فرماتی ہیں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم(اور مسلم میں ہے)لوگ انہیں دیکھو جو متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں تو یہ ہی وہ لوگ ہیں جن کااللہ نے ذکر فرمایا ان سے بچو ۲؎ (مسلم وبخاری)
شرح حديث.
۱؎ یہاں محکم سے صریح اور واضح آیات مراد ہیں جیسا کہ متشابہ کے تقابل سے معلوم ہورہا ہے۔اصطلاح اصول میں محکم وہ ہیں جن میں نہ تاویل کا احتمال ہو نہ نسخ کا اندیشہ جیسے ذات و صفات اورحضور کی نعت و صحابہ کے مناقب کی آیت۔
۲؎ یعنی جو آیتوں کی تاویلات کے پیچھے پڑ ے رہتے ہیں اور فتنہ پھیلانے کے لیئے ان کے فاسد معانی بیان کرتے ہیں ان کے دلوں میں کجی ہے ان سے دور بھاگو۔خیال رہے کہ متشابہ آیات دو قسم کی ہیں:ایک مُشْتَبِہُ الْمَعْنیٰ جیسے” المٓ،الٓرٰ“وغیرہ مقطعات قرآنیہ جن کے معنے ہی سمجھ میں نہیں آتے۔دوسرےمُشْتَبِہُ الْمُرَادْ جیسے”فَثَمَّ وَجْہُ اللهِ“وغیرہ آیاتِ صفات ان دونوں قسم کی متشابہات میں جرح و قدح اور فتنے کے لیئے تاویلیں کرنا حرام ہیں لیکن مناسب تاویلیں اس زمانہ میں گناہ نہیں تاکہ لوگ غلط تاویلوں سے بچیں۔حدیث میں پہلی قسم کے لوگ مراد ہیں اسی لیئے قرآن کریم نےفرمایا:”ابْتِغَآءَ الْفِتْنَۃِ“۔ یقین رکھوکہ الله تعالٰی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ان کی طفیل بعض مقبولوں کو متشابہات کا علم دیا،رب فرماتاہے:”اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ“اپنےمحبوب کو رحمان نے قرآن سکھایا ظاہرہے کہ سارا ہی قرآن سکھایا جس میں متشابہات بھی ہیں۔
مأخذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:151
حدیث نمبر 151
18
May