قرآن و سنت کی اہمیت ( مشکوۃ)

حدیث نمبر 150

وَعَنْ أَبِي مُوسٰى قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللّٰهُ  عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  : “مَثَلُ مَا بَعَثَنِيَ اللّٰهُ  بِهٖ مِنَ الْهُدٰى وَالْعِلْمِ كَمَثَلِ الْغَيْثِ الْكَثِيْرِ أَصَابَ أَرْضًا، فَكَانَتْ مِنْهَا طَائِفَةٌ طَيِّبَةٌ قَبِلَتِ الْمَاءَ فَأَنْبَتَتِ الْكَلأَ وَالْعُشْبَ الْكَثِيْرَ،وَكَانَتْ مِنْهَا أَجَادِبُ أَمْسَكَتِ الْمَاءَ،فَنَفَعَ اللّٰهُ  بِهَا النَّاسَ،فَشَرِبُوْا وَسَقَوْا وَزَرَعُوْاوَأَصَابَ مِنْهَا طَائِفَةٌ أُخْرٰى إِنَّمَا هِيَ قِيعَانٌ لَا تُمْسِكُ مَاءً وَلَا تُنْبِتُ كَلأً،فَذٰلِكَ مَثَلُ مَنْ فَقُهَ فِي دِينِ اللهِ، وَنَفَعَهٗ مَا بَعَثَنِيَ اللّٰهُ  بِهٖ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ، وَمَثَلُ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ بِذٰلِكَ رَأْسًا وَلَمْ يَقْبَلْ هُدَى اللهِ الَّذِيْ أُرْسِلْتُ بِهٖ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.۔
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت ابوموسیٰ سے فرماتے ہیں فرمایا رسولاللہ صلی اللہ  علیہ وسلم نے کہ اس ہدایت و علم کی مثال جو رب نے مجھے دے کر بھیجا ۱؎  اس بہت سی بارش کی طرح ہے ۲؎  جوکسی زمین میں پہنچی اس کا کچھ حصہ اچھا تھا جس نے پانی چوسا اور گھاس اور بہت چارہ اگادیا اور بعض حصہ سخت تھا ۳؎  جس نے پانی جمع کرلیا جس سےاللہ نے لوگوں کو نفع دیا کہ انہوں نے خود پیا پلایا اور کھیتی کی اور ایک دوسرے حصہ میں پہنچا جو چیٹل تھا کہ نہ پانی جمع کرے اور نہ گھاس اُگائے ۴؎  یہ اس کی مثال ہے جو دینی عالم ہوا اور اسے اس چیزنے نفع دیا جو مجھے رب نے دے کر بھیجا اس نے سیکھا اورسکھایا  ۵؎  اور اس کی مثال ہے جس نے اس پر سر نہ اٹھایا اوراللہ کی وہ ہدایت قبول نہ کی جو مجھے دے کر بھیجا گیا ۶؎  (بخاری و مسلم)
شرح حدیث ۔
۱؎   اس سے اشارۃً معلوم ہوا کہ علم اور ہدایت ایک نہیں کبھی علم ہوتا ہے،ہدایت نہیں ہوتی جیسے اس امت کے بے دین علماء،کبھی ہدایت نصیب ہوجاتی ہے بہت ساعلم نہیں ہوتا جیسے وہ عوام جو بے علم ہیں مگر ایمان دار ہیں کبھی علم اور ہدایت دونوں جمع ہوجاتے ہیں،جیسے علمائے دین ہیں۔ہدایت علم سے افضل ہے،اسی لیئے اس کا ذکر پہلے ہوا،علم کتابوں سے ملتا ہے ہدایت کسی کی نظر سے۔
۲؎   اس سے اشارۃً معلوم ہوا کہ حضور کے یہاں علم اور فیضان کی کمی نہیں تمام دنیا فیض لے لے تو گھٹتا نہیں کوئی نہ لے تو بیکاربچتا نہیں جیسےسورج کی روشنی اوربادلوں کاپانی۔
۳؎”اَجَادِبْ”اَجْدَبْکی جمع ہے،بمعنی وہ سخت زمین جوپانی کو چوس کر ختم نہ کردے اسی لیئے قحط کوجدب کہتے ہیں،یہاں مرادنشیبی زمینیں ہیں تالاب بن جاتے ہیں۔
۴؎   اس تشبیہ کا خلاصہ یہ ہے کہ حضورگویا رحمت کا بادل ہیں حضور کا ظاہری اور باطنی فیض اور نورانی کلام بارش۔ انسانوں کے دل مختلف قسم کی زمین۔چنانچہ مؤمن کا دل قابلِ کاشت زمین ہے،جہاں عمل اورتقویٰ کے پودے اُگتے ہیں،علماء اور مشائخ کے سینے گویا تالاب ہیں اور اس خزینہ کے گنجینے ہیں جس سے تاقیامت مسلمانوں کے ایمان کی کھیتیاں سیراب ہوتی رہیں گی۔منافقین اور کفار کے سینے کھاری زمین ہیں نہ فائدہ اٹھائیں نہ پہنچائیں۔
۵؎   اس تشبیہ سے دو فائدے حاصل ہوئے:ایک یہ کہ کوئی شخص کسی درجہ پر پہنچ کر حضور سے بے نیاز نہیں ہوسکتا،زمین کیسی اعلٰی ہو اور کتنا ہی اچھا تخم بویا جائے،مگر بارش کی محتاج ہے،دین و دنیا کی ساری بہاریں حضور کے دم سے ہیں۔شعر
شکر فیض تو چمن چوں کنداے ابر بہار
  کہ اگر خاور گرگل ہمہ پروردۂ تست
دوسرے یہ کہ تاقیامت مسلمان علماء کے حاجت مند ہیں کہ ان کی کھیتیوں کو پانی انہیں تالابوں سے ملے گا حضور کی رحمت انہی کے ذریعہ نصیب ہوگی۔
۶؎   اس میں اشارۃً بتایا گیا کہ اگر بفرض محال کسی کو حضور کی نبوت کی خبر ہی نہ پہنچے تو اسے عقیدۂ توحید کافی ہے،خیال رہے کہ مشبہ بہ میں زمین کے تین حصے بیان فرمائے گئے مگر مشبہ میں انسان کی صرف دو جماعتوں کا ذکر ہوا کیونکہ علماء ہدایت میں عالی ہیں اورکفارگمراہی میں عالی،درمیانی لوگ یعنی صالح مؤمن خود سمجھ میں آجاتے ہیں اس لئے ان کا ذکر نہ ہوا۔خیال رہے کہ تالاب بہت سی قسم کے ہیں بڑے چھوٹے،بہت نافع کم نافع،بعض تالابوں سے نہریں جاری ہوجاتی ہیں جیسے بھوپال کا تالاب،ایسے ہی علماء کے مختلف مراتب ہیں بعض مجتہدین ہیں جیسے چاروں امام،بعض کاملین ہیں،بعض راسخین ہیں،پھر ان میں بعض محدثین ہیں اوربعض مفسرین،یہ تشبیہ ان سب کو شامل ہے۔
مأخذ و مراجع.
   کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح  جلد:1 , حدیث نمبر:150