ایمان و کفر کا بیان, باب الایمان(مشکوۃ)

حدیث نمبر 15

وَعَنْ سُفْيَانَ ابْنِ عَبْدِ اللهِ الثَّقَفِيِّ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ قُلْ لِيْ فِيْ الْإِسْلَامِ قَوْلًا لَا أَسْأَلُ عَنْهُ أَحَدًا بَعْدَكَ وَفِي رِوَايَةٍ غَيْرَكَ قَالَ قُلْ اٰمَنْتُ بِاللهِ ثُمَّ اسْتَقِمْ رَوَاهُ مُسْلِمٌ
ترجمه.روایت ہے حضرت سفیان ابن عبد الله ثقفی سے ۱؎ کہ میں نے عرض کیایارسول الله صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اسلام کے متعلق ایسی بات بتائیں کہ آپ کے بعداس کےمتعلق کسی سے نہ پوچھوں۔ دوسری روایت میں ہے(کہ آپ کے سوا) فرمایا کہ کہو کہ مَیں الله پر ایمان لایا پھر اُس پرقائم رہو ۲؎
شرح حديث.
۱؎ آپ کا نام سفیان ابن عبد الله ابن ربیعہ ہے،کنیت ابو عمرو قبیلہ بنی ثقیف سے ہیں،اہل طائف میں سے ہیں،زمانۂ فاروقی میں طائف کے حاکم رہے،کل پانچ حدیثیں آپ سے مروی ہیں،بڑے متقی عابد تھے۔
۲؎ الله پر ایمان لانےسےمرادسارے عقائد اسلامیہ ماننا ہیں۔لہذا اس میں توحیدورسالت،حشرونشر،ملائکہ،جنت ودوزخ سب پر ایمان لاناداخل ہے۔جیسےکسی کو اپنا باپ مان کر اس کے سارے اہل قرابت کو اپنا عزیر ماننا پڑتاہے کہ اس کا باپ ہمارا دادا ہے،اس کی اولاد ہمارے بھائی بہن،اس کے بھائی ہمارے چچا تائے اور اسقامت سے مراد سارے اعمال اسلامیہ پرسختی وپابندی سے عمل کرنا ہے۔لہذا یہ حدیث ایمان وتقویٰ کی جامع ہے اور اس پر عامل یقینًا جنتی ہے،رب فرماتا ہے:”اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقٰمُوۡا” الخ۔یہ کلمات جامع میں سے ہیں۔
مأخذ. کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:15