قرآن و سنت کی اہمیت ( مشکوۃ)

حدیث نمبر 142

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : “أَبْغَضُ النَّاسِ إِلٰى اللهِ ثَلَاثَةٌ: مُلْحِدٌ فِي الْحَرَمِ، وَمُبْتَغٍ فِي الإِسْلَامِ سُنَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ، وَمُطَّلِبٍ دَمَ امْرِئٍ بِغَيْرِ حَقِّ لِيُهْرِيقَ دَمَهُ”. رَوَاهُ البُخَارِيُّ
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت ابن عباس سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے الله کی بارگاہ میں تین شخص ناپسند ترین ہیں حرم میں بے دینی کرنے والا ۱؎ اسلام میں جاہلیت کے طریقے کا متلاشی۲؎ مسلمان کے خون ناحق کا جویاں تاکہ اس کی خونریزی کرے۳؎(بخاری)
شرح حديث.
۱؎الحاد کے معنی ہیں میلان اور جھکنا۔شریعت میں باطل کی طرف جھکنے والے کوملحد کہتے ہیں۔بدعقیدہ اور گنہگار دونوں ملحد ہیں،یعنی حدود مکہ مکرمہ میں گناہ کرنے والا یا گناہ پھیلانے والا یا بدعقیدگی اختیار کرنے والا یا رائج کرنے والا کہ اگرچہ یہ حرکتیں ہر جگہ ہی بری ہیں مگر حرم شریف میں بہت زیادہ بری کہ اس مقام کی عظمت کے بھی خلاف ہے اور جیسے حرم میں ایک نیکی کا ثواب ایک لاکھ ایسے ہی ایک گناہ کا عذاب بھی ایک لاکھ ہے اسی لیئے حضرت ابن عباس نے مکہ چھوڑکر طائف میں قیام کیا۔
۲؎ یعنی مسلمان ہو کر مشرکانہ رسوم کو پسند کرے اور پھیلائے جیسے نوحہ،سینہ کوبی،فال نکالنا وغیرہ اس سے روافض کو عبرت چاہیئے کہ انہوں نے جاہلیت کی رسموں کو عبادت سمجھ رکھا ہے۔
۳؎ یعنی مسلمان کو ظلمًا قتل کرنا تو بڑا گناہ ہے قتل کی کوشش بھی بدترین جرم ہے۔اس میں وہ سب لوگ داخل ہیں جو بے قصور کو قتل کریں،کرائیں،مشورہ دیں اورقتل کے بعد قاتل کو ناحق چھڑانے کی کوشش کریں۔
مأخذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:142