وَعَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : “أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللهِ، وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ، وَشَرَّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُها وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ”. رَوَاهُ مُسْلِمٌ
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ حمد و صلوۃ کے بعد یقینًا بہترین بات الله کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمدمصطفےٰ کا طریقہ ہے ۱؎ اور بدترین چیز دین کی بدعتیں ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۲؎ (مسلم)
شرح حديث.
۱؎ یہ کلام حضور نے وعظ میں خطبہ کے بعد ارشاد فرمایا اسی لیئے فرمایااَمَّا بَعْدُ ! حدیث کے معنی مطلقًابات اورکلام ہے،لہذا اس معنے سے قرآن بھی حدیث ہے اور لوگوں کے کلام بھی،مگر اصطلاح میں صرف حضور کے فرمان اور کام کو حدیث کہا جاتا ہے،یہاں لغوی معنے میں ہے۔ الله کا کلام تمام کلاموں پر ایسا ہی بزرگ ہے جیسے خود پروردگار اپنی مخلوق پر۔ھدی کے معنے ہیں اچھی خصلت،حضور کی سیرت اچھی ہے کیونکہ رب کی طرف سے ہے،ہمارے کام اور کلام نفسانی اور شیطانی بھی ہوتے ہیں حضور کا ہر قول و فعل رحمانی ہے اسی لیئے حضور کے کسی فعل پر اعتراض کفر ہے کہ وہ رب پر اعتراض ہے،لوگوں نے آپ کے ایک نکاح پر اعتراض کیا تو رب نے فرمایا:”زَوَّجْنٰکَہَا“ہم نے تمہارا نکاح کرایا۔
۲؎مُحْدَثْ کے معنے ہیں جدید اور نوپید چیز،یہاں وہ عقائد یا برے اعمال مراد ہیں جو حضور کی وفات کے بعد دین میں پیدا کیے جائیں۔ بدعت کے لغوی معنے ہیں نئی چیز،رب فرماتا ہے:” اللهبَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْضِ“۔اصطلاح میں اس کے تین معنے ہیں: (۱)نئےعقیدے اسے بدعت اعتقادی کہتے ہیں۔(۲)وہ نئے اعمال جو قرآن و حدیث کے خلاف ہوں اورحضور کے بعد ایجاد ہوں۔(۳)ہر نیا عمل جو حضور کے بعد ایجاد ہوا۔پہلے دو معنے سے ہر بدعت بری ہے کوئی اچھی نہیں،تیسرے معنی کے لحاظ سے بعض بدعتیں اچھی ہیں بعض بری ،یہاں بدعت کے پہلے معنی مراد ہ ہیں،یعنی برے عقیدے،کیونکہ حضور نے اسے ضلالت یعنی گمراہی فرمایا۔گمراہی عقیدے سے ہوتی ہے عمل سے نہیں،بے نماز گنہگار ہے گمراہ نہیں،اور رب کو جھوٹایاحضورکو اپنی مثل بشرسمجھنا بدعقیدگی اور گمراہی ہے،اور اگر دوسرے معنی مراد ہوں تب بھی یہ حدیث اپنے اطلاق پر ہے کسی قید لگانے کی ضرورت نہیں،اور اگرتیسرےمعنی مراد ہوں یعنی نیا کام تو یہ حدیث عام مخصوص البعض ہے کیونکہ یہ بدعت دوقسم کی ہے:بدعت حسنہ اور سیئہ۔یہاں بدعت سیئہ مراد ہے۔بدعت حسنہ کے لیئےکتاب العلم کی وہ حدیث ہے جو آگے آرہی ہے۔”مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً” الحدیث،یعنی جو اسلام میں اچھاطریقہ ایجاد کرے وہ بڑے ثواب کا مستحق ہے،بدعت حسنہ کبھی جائز،کبھی واجب،کبھی فرض ہوتی ہے۔ اس کی نہایت نفیس تحقیق اسی جگہ مرقاۃ اور اشعۃ اللمعات میں دیکھو،نیزشامی اور ہماری کتاب “جاء الحق”میں بھی ملاحظہ کرو۔بعض لوگ اس کے معنی یہ کرتے ہیں کہ جو کام حضور کے بعد ایجاد ہو وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی،مگر یہ معنی بالکل فاسد ہیں،کیونکہ تمام دینی چیزیں،چھ کلمے،قرآن شریف کے ۳۰پارے،علم حدیث اور حدیث کی اقسام اور کتب،شریعت وطریقت کے چار سلسلے،حنفی،شافعی،یاقادری،چشتی وغیرہ،زبان سے نماز کی نیت،ہوائی جہاز کے ذریعہ حج کا سفر اور جدیدسائنسی ہتھیاروں سے جہاد وغیرہ،اور دنیا کی تمام چیزیں پلاؤ،زردے،ڈاک خانہ، ریلوے وغیرہ سب بدعتیں ہیں جوحضور کے بعدایجاد ہوئیں حرام ہونی چاہیے حالانکہ انہیں کوئی حرام نہیں کہتا۔
مأخذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:141
حدیث نمبر 141
17
May