وَعَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ: أَتٰی أَعْرَابِيٌّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: دُلَّنِي عَلٰی عَمَلٍ إِذَا عَمِلْتُهُ دَخَلْتُ الْجَنَّةَ قَالَ «تَعْبُدُ اللهَ وَلَا تُشْرِكُ بِهٖ شَيْئًا وَتُقِيْمُ الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ وَتُؤَدِّيْ الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ وَتَصُوْمُ رَمَضَانَ» . قَالَ: وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهٖ لَا أَزِيْدُ عَلٰى هٰذَا شَيْئًا وَلَا أَنْقُصُ مِنْهُ. فَلَمَّا وَلّٰى قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلٰی رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجنَّةِ فَلْيَنْظُرْ إِلٰی هٰذَا»(مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ)
ترجمه.
روایت ہےحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتےہیں کہ ایک دیہاتی حضورعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے عرض کرنے لگے کہ مجھے ایسے کام کی ہدایت فرمایئے کہ میں
وہ کروں تو جنتی ہوجاؤں فرمایا الله کو پوجو اُس کا کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ نماز قائم کرو،زکوۃ فرض دو،رمضان کے روزے رکھو ۱؎ وہ بولے قسم اس کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کبھی اس سے کچھ گھٹاؤں بڑھاؤں گا نہیں ۲؎ پھرجب وہ چل دیئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو جنتی مردکو دیکھنا چاہے وہ اسے دیکھ لے۳؎
شرح حديث.
۱؎ یہ جملہ عبادت کی تفسیر ہے،چونکہ اس وقت تک جہاد وغیرہ احکام آئے نہ تھے یا اس پر جہاد فرض نہ تھا اس لیے جہاد کا ذکر نہ فرمایا۔
۲؎ یعنی ان فرائض میں اپنی طرف سے زیادتی کمی نہ کروں گا کہ فجر چار یا چھ پڑھوں اور ظہردویاتین یا روزے چالیس رکھ لوں،یا اپنی قوم تک بعینہ یہ ہی احکام پہنچا دوں گا،تبلیغ میں زیادتی کمی نہ کروں گا یا اب سوال میں زیادتی کمی نہ کروں گا،لہذا اس حدیث سے یہ لازم نہیں کہ فطرہ،قربانی،نماز عیدین،روزہ،نذر،وتر ضروری نہ ہوں۔احکام اسو قت تک آئے ہی نہ تھے بعد میں خود حضور نے احکام میں زیادتی فرمائی لہذا یہ حدیث احناف کے خلاف نہیں۔
۳؎ اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے:ایک یہ کہ جنتی آدمی کو دیکھنا بھی ثواب،بزرگوں کے دیدار سے گناہ بخشے جاتے ہیں؎
اُٹھ جاگ فریدا ستیادل مسجددے جا
مت کوئی بخشیا مل پوے تو بھی بخشیا جا
دوسرے یہ کہ حضورکو لوگوں کے انجام نیک بختی،بدبختی کا علم ہے،جانتے ہیں کہ جنتی کون ہے دوزخی کون،حضور کو خبر تھی کہ یہ بندۂ مؤمن تقویٰ پر قائم رہے گا،ایمان پر مرے گا،جنت میں جائے گا۔
مأخذ. کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:14
حدیث نمبر 14
24
Apr