عذاب قبر کا بیان(مشکوۃ)

حدیث نمبر 133

وَعَنْهُ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيِّتِ وَقَفَ عَلَيْهِ فَقَالَ: «اِسْتَغْفِرُوا لِأَخِيْكُمْ ثُمَّ سَلُوا لَهٗ بِالتَّثَبُّتِ فَإِنَّهُ الْآنَ يُسْأَلُ».رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ
ترجمه حديث.
روایت ہے انہی سے فرماتے ہیں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو وہاں کچھ ٹھہرتے اور فرماتے اپنے بھائی کے لیے دعائے مغفرت کرو پھر اس کے لیے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو ۱؎ کہ اس سے اب سوالات ہورہے ہیں ۲؎(ابوداؤد).
شرح حديث.
۱؎ ہمارے ہاں رواج ہے کہ بعد دفن فورًا واپس نہیں ہوتے بلکہ قبر کے آس پاس حلقہ بنا کر کھڑے ہوتے ہیں کچھ پڑھ کر بخشتے ہیں اور میت کے لیے دعا کرتے ہیں۔ان سب کا ماخذ یہ حدیث ہے،یہ تمام فعل سنت ہیں،بعض جگہ بعد دفن قبر پر اذان بھی کہتے ہیں،یہ بھی اسی حدیث سے نکل سکتا ہے کہ اس میں مردے کو تلقین ہے اور اس کے ثبات قدمی کی کوشش ہے حدیث میں ہے:”لَقِّنُوْا مَوْتَاکُمْ بِلَا اِلٰہَ اِلَّا ﷲ“۔۲؎ یعنی ہونے ہی والے ہیں کیونکہ حساب قبر لوگوں کے لوٹنے کے بعدشروع ہوتا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ زندوں کی دعا سے مردوں کو فائدہ ہوتا ہے ایسے ہی ان کے صدقات وخیرات میت کو مفید ہیں۔ابو امامہ کی روایت میں ہے کہ حضور ارشاد فرماتے ہیں دفن کے بعد قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر یہ کہو اے فلاں ابن فلاں اپنا وہ کلمہ یاد کر جسے تو دنیا میں پڑھتا تھا۔تیرا رب اللہ ہے،تیرا دین اسلام ہے،تیرے نبی محمد مصطفےٰ ہیں۔(اشعۃ)مرقاۃ نے فرمایا کہ قبر پر ختم قرآن کرنا مستحب ہے،بیہقی نے حضرت ابن عمر سے روایت کی کہ بعد دفن سرہانۂ قبر پر سورہ بقر ہ کا پہلا رکوع اور پائنتی پر آخری رکوع پڑھنا مستحب ہے۔شیخ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ قبر پر قرآن پڑھنا بہت اعلٰی ہے۔اشعہ میں ہے کہ اگر اس وقت دو چار فقہی مسائل بیان کرکے ثواب میت کو پہنچائے تو اچھا ہے۔
مأخذ.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:133