عذاب قبر کا بیان(مشکوۃ)

حدیث نمبر 131

وَعَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: “يَأْتِيهِ مَلَكَانِ فَيُجْلِسَانِهٖ فَيَقُولَانِ لَهٗ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: رَبِّيَ اللّٰهُ ، فَيَقُولَانِ لَهٗ: مَا دِينُكَ؟ فَيَقُوْلُ: دِينِيَ الْإِسْلَامُ، فَيَقُوْلَانِ لَهٗ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِيْ بُعِثَ فِيْكُمْ؟ فَيَقُوْلُ: هُوَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُوْلَانِ لَهٗ: وَمَا يُدْرِيكَ؟ فَيَقُولُ: قَرَأْتُ كِتَابَ اللّٰهِ فَآمَنْتُ بِهٖ وَصَدَّقْتُ؛ فَذٰلِكَ قَولُهٗ: {يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِينَ آمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ} الآيَةَ قَالَ: فَيُنَادِيْ مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ أَنْ صَدَق عَبدِي فَأفْرِشُوْهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَأَلْبِسُوْهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَافْتَحُوْا لَهٗ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ فيُفْتَحُ، قَالَ: فَيَأتِيْهِ مِنْ رَوْحِهَا وَطِيْبِهَا، وَيُفْسَحُ لَهٗ فِيهَا مَدَّ بَصَرِهٖ، وَأَمَّا الكَافِرُ فَذَكَرَ مَوْتَهٗ، قَالَ: وَيُعَادُ رُوْحُهٗ فِيْ جَسَدِهٖ وَيَأْتِيْهِ مَلَكَانِ فَيُجْلِسَانِهٖ، فَيَقُوْلَانِ لَهٗ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِيْ، فَيَقُوْلَانِ لَهٗ: مَا دِيْنُكَ؟ فَيَقُوْلُ: هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِيْ، فَيَقُوْلَانِ: مَا هٰذَا الرَّجُلُ الَّذِيْ بُعِثَ فِيْكُمْ؟ فَيَقُوْلُ: هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِيْ، فَيُنَادِيْ مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ أَنْ كَذَبَ فَأَفْرِشُوْهُ مِنَ النَّارِ، وَأَلْبِسُوْهُ مِنَ النَّارِ، وَافْتَحُوْا لَهٗ بَابًا إِلَى النَّارِ، قَالَ: فَيَأْتِيْهِ مِنْ حَرِّهَا وَسَمُوْمِهَا، قَالَ: وَيُضَيَّقُ عَلَيْهِ قَبْرُهٗ حَتّٰى يَخْتَلِفَ فِيْهِ أَضْلَاعُهٗ، ثُمَّ يُقَيَّضُ لَهٗ أعْمَى أَصَمُّ مَعَهٗ مَرْزَبَةٌ مِنْ حَدِيْدٍ، لَوْ ضُرِبَ بِهَا جَبَلٌ لَصَارَ تُرَابًا، فَيَضْرِبُهٗ بِهَا ضَرْبَةً يَسْمَعُهَا مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمغْرب إِلَّا الثَّقَلَيْنِ،فَيَصِيْرُ تُرَابًا، ثُمَّ يُعَادُ فِيْهِ الرُّوْحُ”. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ.
ترجمه حديث.
روایت ہے براءابن عازب سے وہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی فرماتے ہیں کہ مردے کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اسے بٹھاتے ہیں ۱؎ پھر اس سے کہتے ہیں تیرا رب کون؟وہ کہتا ہے میرا رب الله ہے پھر کہتے ہیں تیرا دین کیا وہ کہتا ہے میرا دین اسلام ہے۲؎ پھر وہ کہتے ہیں یہ کون صاحب ہیں جو تم میں بھیجے گئے تو وہ کہتا ہے وہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ہیں فرشتے کہتے ہیں۔تجھے یہ کیسے معلوم ہوا ۳؎ وہ کہتا ہے میں نے الله کی کتاب پڑھی اس پر ایمان لایا،اسے سچا جانا۴؎ یہ ہی اس آیت کی تفسیر ہے “یُثَبِّتُ اللهُ”الایہ۔فرمایاحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے پھر آسمان سے پکارنے والا پکارتا ہے کہ میرا بندہ سچا ہے ۵؎ لہذا اس کے لیے جنت کا بستر بچھاؤ اسے جنت کا لباس پہناؤاور اس کے لیے جنت کی طرف دروازہ کھول دو پس کھول دیا جاتا ہے فرماتے ہیں کہ اس تک جنت کی ہوا اور وہاں کی خوشبو آتی ہے ۶؎ اور تاحد نظر قبر میں فراخی کردی جاتی ہے ۷؎ رہا کافرحضور نے اس کی موت کا ذکر فرمایا ۸؎ فرمایا کہ اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں پھر وہ اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں تیرا رب کون ہے؟وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا ۹؎ پھر اس سےپوچھتے ہیں تیرا دین کیا؟وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا۱۰؎ پھر وہ کہتے ہیں کہ یہ کون صاحب ہیں جو تم میں بھیجے گئے ۱۱؎ وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا۱۲؎تب پکارنے والا آسمان سے پکارتا ہے کہ یہ جھوٹا ہے ۱۳؎ لہذا اس کے لیے آگ کا بچھونا بچھاؤآگ کا لباس پہناؤ اور اس کے لیے آگ کی طرف دروازہ کھول دو فرمایا پھر اس تک وہاں کی گرمی اور لو آتی ہے۱۴؎ فرمایا اس پر اس کی قبر تنگ ہوجاتی ہے۔حتی کہ وہاں اس کی پسلیاں ادھر کی ادھر ہوجاتی ہیں۱۵؎ پھر اس پر اندھے بہرے فرشتے مسلط ہوتے ہیں۱۶؎ جن کے پاس لوہے کے ہتھوڑے ہوتے ہیں اگر ان سے پہاڑ کو مارا جائے تو وہ بھی مٹی ہوجائے اس سے اسے مارتے ہیں ایسی مار جس سے جن و انس کے سوا پورب پچھم کی مخلوق سنتی ہے ۱۷؎ جس سے وہ مٹی ہوجاتا ہے پھر اس میں روح لوٹائی جاتی ہے ۱۸؎ (احمد، ابوداؤد)
شرح حديث.
۱؎ خیال رہے کہ لیٹے ہوئے کا بیٹھنا جلوس ہے اور کھڑے ہوئے کا بیٹھنا قعود کبھی مجازًا ایک کو دوسرے کے معنے میں استعمال کرلیتے ہیں یہاں حقیقی معنے میں ہے۔یہاں بٹھالنا بھی غیرحسی ہے،مردے خانہ میں کافر کی لاشیں ہمارے سامنے پڑی رہتی ہیں مگر فرشتے اسے بٹھال کر امتحان لے کر عذاب میں گرفتار کرجاتے ہیں اور ہمیں پتہ بھی نہیں لگتا ہمارے سامنے سونے والا بدخوابی میں تکلیف پارہا ہے گھبرا رہا ہے مگر ہمیں خبر نہیں۔
۲؎ یہ سوال جواب سب عربی زبان میں ہوتے ہیں بعد موت سب کی زبان عربی ہوجاتی ہے۔(مرقاۃ)لیکن مردہ اپنی زندگی کی زبان بھی سمجھتا ہے۔ہمارے حضور زندگی شریف میں تمام زبانیں جانتے ہیں حتی کہ لکڑی و پتھر کی زبانیں،جانور حضور (صلی اللہ علیہ وسلم )سے فریادیں کرتے تھے اور اب بھی ہر زبان سے واقف ہیں،حضور کے روضہ پر ہر فریادی اپنی زبان میں عرض و معروض کرتا ہے وہاں ترجمہ کی ضرورت نہیں پڑتی۔
۳؎ یہ سوال خوشی کا ہے یعنی اے بندے!اس نازک موقعہ پر تو نے انہیں کیسے پہچان لیا اور تو امتحان میں کامیاب کیسے ہوگیا؟
۴؎ یعنی بلاواسطہ میں نے قرآن شریف خو د سیکھا یا علماء کے ذریعہ اس سے عقائد اور اعمال حاصل کیئے لہذا یہ جواب علماء کے لیئے بھی درست ہے اور جاہلوں کے لیے بھی،اس جواب سے معلوم ہوا کہ قبر میں حضور کی پہچان ایمانی رشتہ سے ہوگی خواہ حضور کو دیکھا ہو یا نہ دیکھا ہو۔خیال رہے کہ مؤمن ایک لحاظ سے حضور سے قرآن کو جانتا ہے اور دوسرے لحاظ سے قرآن سے حضور کو پہچانتا ہے۔
۵؎عبدی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلام رب کا ہے۔جسے بندہ آج پہلی بار اپنے کان سے سنتا ہے اس کلام کو سن کر جو خوشی بندے کو ہوتی ہے وہ بیان نہیں ہوسکتی،سچا ہے کہ یہ معنی ہیں کہ دنیا میں بھی سچا رہا اور آج بھی سچ بولا۔
۶؎ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ قبر میں جنت کی نعمتیں پہنچتی ہیں مگر بندہ وہاں نہیں پہنچا،بندے کاجنت میں پہنچنا حشر کے بعد ہوگا۔
۷؎ یہ حدیث ستر۷۰گز فراخی کی تفسیر ہے۔
۸؎ کہ کس مصیبت سے اس کی جان نکلتی ہے،نیز اسے دنیا چھوٹنے کا صدمہ،عذاب کے فرشتوں کی ہیبت،آیندہ عذاب کا ڈرسب جمع ہوجاتے ہیں۔مؤمن کو اس میں سے کچھ بھی نہیں ہوتا۔
۹؎ معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے دنیا میں حضور سے رشتہ غلامی نہ جوڑا۔اگرچہ وہ توحید کےقائل رہے مگر قبر میں توحید وغیرہ سب کا سب بھول جائیں گے کیونکہ یہ جواب ہر کافر کا ہوگا۔دہریہ ہو یا مشرک ہو یا شیطانی توحید والا موحّد۔
۱۰؎ یعنی اسے یہ بھی یاد نہ رہا کہ دنیا میں میں نے اسلام کے سوا کون سا دین اختیار کیا تھا کیونکہ سارے کفر شیطانی دین ہیں،جن کی بنیاد نفسانی ہے،مرتے ہی شیطان ساتھ چھوڑ گیا نفس ٹوٹ گیا۔جب جڑ ہی کٹ گئی شاخیں کیسے باقی رہیں۔
۱۱؎ معلوم ہوا کہ کافر میت کو بھی حضور کا دیدار کرایا جاتا ہے مگر وہ پہچان نہیں سکتا کیونکہ ان کی پہچان بصارت سے نہیں ہوتی بلکہ د ل کی بصیرت سے ہوتی ہے۔نابینا صحابہ نے حضور کو دیکھ لیا آنکھ والے کافر حضور کو نہ دیکھ سکے،بصارت سرمہ سے تیز ہوتی ہے،بصیرت مقبولین کے آستانوں کی خاک سے۔
۱۲؎ اس جواب سے وہ لوگ عبرت پکڑیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے جیسا بشر اور بڑا بھائی کہنے کو ایمان سمجھتے ہیں اگر اس سے ایمان مل جاتا تو یہ کافر کہہ سکتا تھا کہ یہ ایک بشر ہیں یا میرے بھائی ہیں،بشریت مصطفوی پہچاننے پر نجات نہیں نبوت کے پہچاننے پر نجات ہے بشریت تو ابوجہل بھی مانتا تھا۔
۱۳؎ کیونکہ یہ کہتا ہے کہ میں انہیں جانتا ہی نہیں حالانکہ زندگی میں انہیں جادوگر،شاعر،اپنے جیسا بشر،بڑا بھائی کہتا تھا اور یہاں کہتا ہے میں جانتا ہی نہیں جس کو واقعی حضور کی نبوت کی اطلاع نہ پہنچی ہو اس کے لیئے صر ف عقیدہ توحید کافی ہے اور اس سے یہ سوال جواب بھی نہیں،نیز حضور کی نبوت مشرق و مغرب میں پھیل چکی اب جو دانستہ اس سے غافل رہے وہ بھی مجرم ہے اورلا ادری کہنے میں جھوٹا ہے۔خیال رہے کہ یہاںعبدی نہ فرمایا کیونکہ یہ لفظ رحمت کا ہے اور کفرمستحق لعنت۔
۱۴؎ یعنی آگ کے شعلے دھواں بلکہ وہاں کے سانپ بچھو بھی اور گرم ہوا بھی بعض قبروں میں یہ چیزیں دیکھی بھی گئیں،اللہ کی پناہ۔
۱۵؎ یہ تنگی بھی تاقیامت رہتی ہے جیسے کہ گرمی اورآگ۔
۱۶؎ ان عذاب کے فرشتوں کا نام زبانیہ ہے اندھے بہرے سے مراد سخت دل بے رحمی اور لاپرواہی ہے کہ اس کی تکلیف دیکھ کر رحم نہیں کرتے آہ و بکاہ سن کر کان نہیں دھرتے۔(اشعۃ)ورنہ اندھا بہرہ ہونا عیب ہے جس سے فرشتے پاک ہیں۔رب قیامت میں کافر سے فرمائے گا”وکَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنۡسٰی“حالانکہ رب بھول سےپاک ہے۔
۱۷؎ حدیث بالکل ظاہر پر ہے کسی تاویل کی ضرورت نہیں جن وانس سےعوام مراد ہیں مقبولین یہ آہ و بکا سنتے بھی ہیں بلکہ عذاب قبر دیکھتے بھی ہیں۔
۱۸؎ یعنی جیسے دنیا میں سخت تکلیف میں جان نکل جاتی تھی ایسے ہی وہاں بھی ہوگا کہ ہتھوڑے کی ہر چوٹ پر جان نکلے گی پھر ڈالی جائے گی اسی لیئے قیامت میں کافر عرض کریں گے”رَبَّنَاۤ اَمَتَّنَا اثْنَتَیۡنِ وَ اَحْیَیۡتَنَا اثْنَتَیۡنِ” خدایا تو نے ہمیں بار بار موت و زندگی دی،اس آیت میںاثنتین سے باربار مراد ہے جیسے ” فَارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیۡنِ“۔غرض کہ یہ آیت اس حدیث کی تفسیر ہے اس آیت کی اورتفسیریں بھی کی گئی ہیں۔
مأخذ.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:131