عذاب قبر کا بیان(مشکوۃ)

حدیث نمبر 130

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : “إِذَا أُقْبِرَ الْمَيِّتُ أَتَاهُ مَلَكَانِ أَسْوَدَانِ أَزْرَقَانِ، يُقَالُ لِأَحَدِهِمَا: الْمُنْكَرُ، وَللآخَرِ: النَّكَيرُفَيَقُوْلَانِ: مَا كُنْتَ تَقُوْلُ فِي هٰذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُوْلُ:هٰذَا عَبْدُ اللّٰهِ وَرَسُوْلُهٗ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُولُهٗ، فَيَقُوْلَانِ: قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُوْلُ هٰذَا، ثُمَّ يُفْسَحُ لَهٗ فِيْ قَبْرِهٖ سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فِيْ سَبْعِيْنَ، ثُمَّ يُنَوَّرُ لَهٗ فِيْهِ، ثُمَّ يُقَالُ لَهٗ: نَمْ، فَيَقُولُ: أَرْجِعُ إِلٰى أَهْلِيْ فَأُخْبِرُهُمْ، فَيَقُولَانِ: نَمْ كَنَوْمَةِ الْعَرُوسِ الَّذِي لَا يُوقِظُهٗ إِلَّا أَحَبُّ أَهْلِهٖ إِلَيْهِ،حَتّٰى يَبْعَثَهُ اللّٰهُ مِنْ مَضْجَعِهٖ ذٰلِكَ، وَإِنْ كَانَ مُنَافِقًا قَالَ: سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُوْلُوْنَ قَوْلًا فَقُلْتُ مِثْلَهٗ لَا أَدْرِيْ، فَيَقُوْلَانِ: قَدْ كنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُوْلُ ذٰلِكَ، فَيُقَالُ لِلأَرْضِ: الْتَئِمِيْ عَلَيْهِ، فَتَلْتَئِمُ عَلَيْهِ، فَتَخْتَلِفُ أَضْلَاعُهٗ، فَلَا يَزَالُ فِيْهَا مُعَذَّبًا حَتّٰى يَبْعَثَهُ اللّٰهُ مِنْ مَضْجَعِهٖ ذٰلِكَ”. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے جب میت دفن کی جاتی ہے ۱؎ تو اس کے پاس دو سیاہ رنگ نیلی آنکھوں والے فرشتے آتے ہیں ۲؎ ایک کو منکر دوسرے کو نکیر کہا جاتا ہے ۳؎ وہ کہتے ہیں کہ تو ان صاحب کے بارے میں کیا کہتا تھا؟۴؎ تو میت کہتا ہے یہ الله کے بندے ہیں اور اس کے رسول میں گواہی دیتا ہوں کہ الله کے سوا کوئی معبود نہیں اور یقینًا محمد الله کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۵؎ تب وہ کہتے ہیں ہم تو جانتے تھے کہ تو یہ کہے گا ۶ ؎ پھر
اس کی قبر میں فراخی دی جاتی ہے ستر ۷۰ گز میں ۷ ؎ پھر اس کے لیے وہاں روشنی کردی جاتی ہے ۸ ؎ پھر اسے کہا جاتا ہے سو جا وہ کہتا ہے میں اپنے گھر جاؤں تاکہ انہیں یہ خبر دوں ۹ ؎ تو وہ کہتے ہیں دلہن کی طرح سوجا جسے اس کے پیارے خاوند کے سوا گھر کا کوئی نہیں جگاتا۱۰؎ تا آنکہ الله اسے اس کی خواب گاہ سے اٹھائے گا اور اگر مردہ منافق ہو تو کہتا ہے کہ میں نے لوگوں سے کچھ کہتے سنا تھا اسی طرح میں بھی کہہ دیتا تھا میں نہیں پہچانتا۱۱؎ تب وہ کہتے ہیں کہ ہم تو جانتے تھے کہ تو یہ کہے گا۱۲؎ پھر زمین سے کہا جاتا ہے کہ اس پر تنگ ہو جاؤ اس قدر تنگ ہو جاتی ہے کہ مردے کی پسلیاں ادھر ادھر ہو جاتی ہیں ۱۳؎ پھر وہ قبر کے عذاب میں ہی رہتا ہے تاآنکہ الله اسے اس ٹھکانے سے اٹھائے ۱۴؎ (ترمذی)
شرح حديث.
۱؎ دفن کا ذکر اتفاقی ہے۔چونکہ عرب میں عام مردے دفن ہی ہوتے تھے اس لیئے فرمایا گیا ورنہ جو مردہ دفن نہ بھی ہو بلکہ اسے جلا کر خاک کیا گیا ہو یا شیرو مچھلیاں کھا گئیں ہوں اس کے اجزائے اصلیہ سے روح متعلق کردی جاتی ہے۔اورسوال جواب ہوجاتے ہیں اگرچہ وہ اجزاء دنیا میں بکھرے ہوں۔(مرقات ولمعات وغیرہ)
۲؎ یہ دونوں فرشتے وہ ہیں جو حساب قبر پر مقرر ہیں یہ انسانی شکل بنا کر اس رنگ میں اس لیئے آتے ہیں تاکہ ان کی ہیبت سے کفار تو گھبرا جائیں اور حیرانی سے جواب نہ دے سکیں اورمؤمن مطمئن رہیں اور با آسانی جواب دیں یہ گھبراہٹ اور اطمینان کافر و مؤمن میں فرق کرنے کے لیئے ہے۔اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے:ایک یہ کہ نورانی مخلوق میں بیک وقت ہزار ہا جگہ موجود ہوجانے کی طاقت ہے،دو فرشتے ایک آن میں ہزار قبروں میں پہنچ جاتے ہیں،لہذا بعض اولیاء کا بیک وقت چند جگہ پایا جانا ممکن ہے۔دوسرے یہ کہ جب نور شکل انسانی میں آئے تو جسم انسانی کے لوازمات اس میں پائے جائیں گے،فرشتے نور ہیں اور نورنہ کالا ہو نہ نیلا مگر جب شکل انسانی میں آئے تو ان کے چہرے کا رنگ کالا بھی ہوگیا،آنکھیں نیلی بھی۔موسیٰ علیہ السلام کی لاٹھی جب سانپ بنتی تو کھاتی پیتی بھی تھی “تَلْقَفُ مَا یَاۡفِکُوۡنَ “ہاروت فرشتے جب شکل انسانی میں آئے تو کھاتے پیتے بلکہ صحبت بھی کرسکتے تھے،اس سے وہ لوگ عبرت پکڑیں جو کہتے ہیں کہ اگر حضور نور تھے تو کھاتے پیتے کیوں تھے۔
۳؎ ان لفظوں کے معنے ہیں اجنبی جس کو دیکھ کر گھبراہٹ ہو چونکہ میت نے انہیں کبھی دیکھا نہیں ہوتا ان کی شکل ہیبت ناک بھی ہوتی ہے
ا سیلئے ان کا یہ نام ہے۔شیخ نے اشعۃ اللمعات میں فرمایا کہ کافروں کے سوال کرنے والے فرشتوں کا یہ نام ہے۔اورمؤمنوں کے ممتحنوں کا نام مبشر اور بشیر ہے مگر ناموں کا فرق ہے ذات ایک ہی ہے۔
۴؎ مرقاۃ میں فرمایا کہ شکلِ پاک مصطفےٰ ہرقبر میں جلوہ گرہوتی ہے جیسے ہر آئینہ میں سورج۔بعض علماء فرماتے ہیں کہ قبر سے روضۂ اطہر تک کے حجاب اٹھا دیئے جاتے ہیں،جس سے میت بے تکلف جمالِ جہاں آرا کا نظارہ کرتا ہے۔بعض نے فرمایا کہ مؤمن سے پھر یہ جمال تا قیامت غائب نہیں ہوتا،اسی لیئے بعض عشاق موت کی تمنا کرتے ہیں حضور نے حضرت فاطمہ زہرا سے فرمایا کہ میرے اہل بیت میں پہلے تم مجھ سے ملو گی یا ازواج پاک سے فرمایا کہ تم میں جو زیادہ سخی ہوگی وہ مجھ سے پہلے ملے گی اس کا یہی مطلب ہے۔ خیال رہے کہ ان فرشتوں کا حضور انور کورجل فرمانا تو ہین کے لیے نہیں کہ یہ کفر ہے بلکہ امتحان کی تکمیل کے لیئے ہے کہ اگر وہ نبی یا رسول کہہ دیتے تو امتحان ہی کیا ہوتا۔
۵؎ قبر میں سوال بھی تین ہوتے ہیں اور جواب بھی تین،مگر یہاں سوال تو ایک فرمایا گیا جو سب کو جامع تھا۔اور جواب تینوں کا توحید کا بھی،دین کا،اور رسالت کا بھی۔اس سے معلوم ہورہا ہے کہ بندہ حضور ہی کو دیکھتا ہے نہ کہ آپ کے فوٹو کو ورنہ یہ جواب عین کفر ہوتا۔کیونکہ حضور کے فوٹو کو نبی کہنا ایسے ہی کفرہے جیسے رب کے نام کا پتھر گھڑکر اسے خداکہنا۔
۶؎ یعنی یہ سوال جواب قانونی طور پر ہے ہم تیرے ایمان سے بے خبر نہ تھے۔معلوم ہوا کہ فرشتے ہر شخص کی سعادت اور شقاوت،کفر و ایمان سے خبردار ہیں۔ہمارے حضور جو اعلم الخلق ہیں ان کے علم کاکیا پوچھنا،مرقات میں فرمایا کہ فرشتے مؤمن میت کی پیشانی میں نور ایمان کی شعاع عبادت کا اثر اور سعادت کی علامتیں دیکھتے ہیں۔جیسے قیامت میں ہرشخص مؤمن و کافر کو پہچان لے گا رب فرماتا ہے:”یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوۡہٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوۡہٌ“۔
۷؎ یعنی چار ہزار نوسوگز جو ستر کی ضرب ستر میں دینے سے حاصل ہے،یعنی سترگز لمبی سترگز چوڑی کل رقبہ چار ہزار نوسو،یہ بیان وسعت کے لیئے ہے نہ کہ حصر کے لیئے۔بعض روایتوں میں ہے تاحد بصر وہ اس کی تفسیر ہے۔
۸؎ یہ روشنی چاند سورج وغیرہ کی نہیں ہوتی بلکہ نورِ الٰہی یا نور مصطفوی کی جگمگاہٹ ہوتی ہے ممکن ہے کہ ایمان قلبی کا نور ہو تب بھی وہی ہے۔
۹؎ کہ میں کامیاب ہوگیا اور نہایت آرام سے ہوں۔معلوم ہوا کہ میت اپنے گھروالوں کو پہچانتا ہے اور وہاں پہنچنے کی بھی طاقت رکھتا ہےکیونکہ وہ یہ نہیں کہتا کہ تم مجھے لے چلو یا سواری لاؤ بلکہ کہتا ہے میں جاتا ہوں اگرچہ اس کے گھر والے صدہا کوس ہوں۔
۱۰؎ مرقات میں فرمایا کہ یہاں سونے سے مراد آرام کرنا ہے یعنی یہ برزخی زندگی آرام سے گزار کہ تجھ تک سوا خدا کی رحمت کے کوئی آفت یا بلا نہیں پہنچ سکے گی جیسے کہ عروس دلہن کے پاس دلہا کے سوا کوئی نہیں پہنچتا یہ نیند غفلت والی مراد نہیں،رب فرماتا ہے: “یُرْزَقُوۡنَ فَرِحِیۡنَ بِمَاۤ اٰتٰىہُمُ اللهُ مِنۡ فَضْلِہٖ وَیَسْتَبْشِرُوۡنَ بِالَّذِیۡنَ لَمْ یَلْحَقُوۡا بِہِمۡ“۔اس آیت سےمعلوم ہوا کہالله کےمقبول قبرمیں جنتی روزی کھاتے ہیں،خوش و خرم رہتے ہیں اور دنیا کے لوگوں کی خبر رکھتے ہیں،اگر وہ سوگئے ہوتے تو پھل کیسے کھاتے،یہاں کی خبر کیسے رکھتے،نیز قبرستان میں پہنچ کر سلام کرنا سنت نہ ہوتا کیونکہ سوتوں کو سلام کرنامنع ہے لہذا اس حدیث سے وہابی دلیل نہیں پکڑسکتے،یہ حدیث بزرگوں کے عرس کا ماخذ ہے چونکہ فرشتوں نے اس دن صاحبِ قبر کو عروس کہا ہے لہذا اس دن کا نام روزِ عرس ہے موت مؤمن کی شادی کا اور کافر کی گرفتاری کا دن ہے۔
۱۱؎ معلوم ہوا کہ دلی ایمان قبر میں ساتھ جائے گا نہ کہ زبانی اسلام۔اس کی تحقیق پہلے کی جاچکی۔
۱۲؎ کیونکہ لوحِ محفوظ ہمارے سامنے ہے،تیرا کفر پر مرنا ہمیں معلوم ہے،تیری پیشانی میں کفر کی تاریکی دیکھ رہے ہیں،یہ سوال جواب محض قانون کے لیئے ہیں۔
۱۳؎ یعنی دائیں پسلیاں بائیں اور بائیں پسلیاں دائیں طرف لیکن اس کی یہ حالت ہماری حس سے بالا ہے اگر ہم کافر کی لاش دیکھیں تو ویسی ہی صحیح معلوم ہوگی۔خیال رہے کہ اگر ایک ہی قبر میں کافر و مؤمن دفن ہوگئے تو وہ ہی قبر مؤمن کے لیئے فراخ ہوگی اورکافر کے لیئے تنگ،مؤمن کے لیئے روشن اور کافر کے لیئے اندھیری،مؤمن کے لیئے ٹھنڈی کافر کے لیئے گرم،اور مؤمن کے لیئے مہکی ہوئی،کافر کے لیئے بدبودارجیسے ایک بستر میں دو آدمی سو رہے ہوں ایک اچھی اور دل خوش کن خواب دیکھے،دوسرا پریشان کن اور ہیبت ناک خواب دیکھے،بستر ایک ہے مگر دونوں کی حالتیں مختلف،خواب بزرخ کی ایک تمثیل ہے،خواب اکثر خیال ہوتی ہے۔بزرخ میں حقیقت ہوگی،پسلیاں فرمانا سمجھانے کے لیئے ورنہ جن کفار کی پسلیاں راکھ بنادی گئیں یا جانوروں نے ہضم کر لیں ان کی روح پربھی تنگی ایسی ہی ہوگی اس کے لیئے قبر ایک شکنجہ ہے۔
۱۴؎ یعنی قیامت تک معلوم ہوا کہ کافر کا عذاب کسی تدبیر سے بھی ختم یا ہلکا نہیں ہوسکتا،گنہگار مؤمن کا عذاب قبر بزرگوں کے قدم،زندوں کے ایصالِ ثواب وغیرہ سے ہلکا ہوجاتا ہے۔
مأخذ.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:130