عذاب قبر کا بیان(مشکوۃ)

حدیث نمبر 127

وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : “إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا مَاتَ عُرِضَ عَلَيْهِ مَقْعَدُهٗ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ، إِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَمِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَيُقَالُ: هَذَا مَقْعَدُكَ حَتّٰى يَبْعَثَكَ اللّٰهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ” مُتَّفقٌ عَلَيْهِ.
ترجمه حديث.
روایت ہے عبد الله ابن عمر سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ تم میں سے جب کوئی مرجاتا ہے تو صبح شام اس پر اس کا ٹھکانا پیش کیا جاتا رہتا ہے ۱؎ اگر جنتی ہے تو جنت کا ٹھکانہ اور اگر دوزخیوں میں سے ہے تو دوزخ کا ٹھکانہ ۲؎ پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ تیرا ٹھکانہ ہے تاآنکہ قیامت کے دن الله تجھے ادھربھیجے گا ۳؎ (مسلم،بخاری)
شرح حديث.
۱؎ یہاں صبح و شام سے مراد ہمیشگی ہے یعنی میت قبر سے ہر وقت اپنے جنتی یا دوزخی ٹھکانے کو دیکھتا رہتا ہے لہذا احادیث میں تعارض نہیں اس کی تائید اس آیت سے ہے”اَلنَّارُ یُعْرَضُوۡنَ عَلَیۡہَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا“۔(ازمرقاۃ)
۲؎ دیکھتا ر ہتا ہے اور قبر میں جنت کی خوشبوئیں،وہاں کی ٹھنڈی ہوائیں بلکہ وہاں کے پھل بھی آتے رہتے ہیں۔ایسے ہی کافر کی قبر میں کہ دوزخ کی لُو،وہاں کی بدبو اور سانپ بچھو قبر میں پہنچتے رہتے ہیں۔خیال رہے کہ قبر میں جنت کا آرام یا دوزخ کی تکلیف پہنچ جاتی ہے مگر جسم کا جنت میں ثواب کے لیئے پہنچنا بعد قیامت ہوگا۔ہاں شہداء کی رُوحیں مرتے ہی جنت میں پہنچ جاتی ہیں جسمانی داخلہ ان کا بھی بعد قیامت ہے۔
۳؎ خیال رہے کہ مؤمن کی روح قبر میں یا کسی اور مقام پر قید نہیں ہوتی بلکہ بعض ارواح تو تمام عالم میں چکر لگاتی ہیں جیساکہ مرقاۃ وغیرہ میں ہے مگر ہیڈ کوارٹر قبر ہی ہوتی ہے اور تعلق وہاں سے ہر وقت رہتا ہے۔جیسے سونے کی حالت میں سیلانی روح کا تعلق جسم سے،اسی لیئے زیارت قبور کی جاتی ہے اور وہاں میت کو ایصالِ ثواب اور عرض و معروض کیا جاتا ہے۔”ھٰذَا مَقْعَدُكَ“سے یہی مرادہے۔
مأخذ.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:127