عذاب قبر کا بیان(مشکوۃ)

حدیث نمبر 126

وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضعَ فِي قَبْرِهٖ وَتَوَلّٰى عَنْهُ أَصْحَابُهٗ إِنَّهٗ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ،أَتَاهُ مَلَكَانِ فَيُقْعِدَانِهٖ، فَيَقُولَانِ: مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هٰذَا الرَّجُلِ لِمُحَمَّدٍ؟ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَقُوْلُ: أَشْهَدُ أَنَّهٗ عَبْدُ اللّٰهِ وَرَسُولُهٗ، فَيُقَالُ لَهٗ: اُنْظُرْ إِلٰى مَقْعَدِكَ مِنَ النَّارِ قَدْ أَبْدَلَكَ اللّٰهُ بِهٖ مَقْعَدًا مِنَ الْجنَّة، فَيَرَاهُمَا جَمِيْعًا، وَأَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْكَافِرُ، فَيُقَالُ لَهٗ: مَا كُنْتَ تَقُوْلُ فِيْ هٰذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُوْلُ: لَا أَدْرِيْ، كُنْتُ أَقُوْلُ: مَا يَقُوْلُ النَّاسُ، فَيُقَالُ: لَا دَرَيْتَ لَا تَلَيْتَ وَيُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيْدٍ ضَرْبَةً، فَيَصِيْحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيْهِ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ” مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، وَلَفْظُهٗ لِلْبُخَارِيِّ
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت انس سے فرماتے ہیں فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جب بندے کو قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی لوٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آہٹ سنتا ہے ۱؎ اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اسے بٹھاتے ہیں ۲؎ پھر کہتے ہیں کہ تو ان صاحب کے متعلق کیا کہتا تھا یعنی محمد ۳؎ تو مؤمن کہہ دیتا ہے میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۴؎ تب اس سے کہا جاتا ہے کہ اپنا دوزخ کا ٹھکانا دیکھ جسے اللہ نے جنت کے ٹھکانے سے بدل دیا ۵؎ تو وہ ان دونوں کو دیکھتا ہے ۶؎ لیکن منافق اور کافر اس سے کہا جاتا ہے کہ ان صاحب کے بارے میں كيا کہتا تھا ؟ ۷؎ وہ کہتا ہے میں نہیں جانتا جو لوگ کہتے تھے وہی میں کہتا تھا ۸؎ تو اس سے کہا جاتا ہے کہ تو نے نہ پہچانا قرآن نہ پڑھا ۹؎ اور لوہے کے ہتھوڑوں سے مار ماری جاتی ہے جس سے وہ ایسی چیخیں مارتا ہے کہ سواء جن و انس تمام قریبی چیزیں سنتی ہیں ۱۰؎ (مسلم وبخاری)الفاظ بخاری کے ہیں۔
شرح حديث.
۱؎ اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے:ایک یہ کہ مردے سنتے ہیں،مردوں کا سُننا قرآنی آیات اور بے شمار احادیث سے ثابت ہے۔حضرت شعیب وصالح علیہما السلام نے عذاب یافتہ قوم کی نعشوں پر کھڑے ہو کر فرمایا:”یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ”الآیہ۔رب فرماتا ہے:”وَسْـَٔلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنۡ قَبْلِکَ مِنۡ رُّسُلِنَاۤ “یعنی اے محبوب! پچھلے پیغمبروں سے پوچھو،بلکہ ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا گیا:”ثُمَّ ادْعُہُنَّ یَاۡتِیۡنَکَ سَعْیًا“ذبح کیے ہوئے جانوروں کو پکارو دوڑتے ہوئے آجائیں گے،یہ حدیث سماع موتٰی کے لیے نصِّ صریح ہے،ہمارے حضور علیہ السلام نے بدر میں مقتول کفار کی لاشوں پر کھڑے ہو کر ان سے کلام کیا۔خیال رہے کہ مردے کا یہ سننا ہمیشہ رہتا ہے،اس لئے حکم ہے کہ قبرستان میں جاکر مردوں کو سلام کرو،حالانکہ نہ سننے والوں کو سلام کیسا ؟ جن آیتوں میں سماع موتٰی کی نفی ہے وہاں مردوں سے مراد دل کے مردے یعنی کافر ہیں،اور سننے سے مراد قبول کرنا ہے اسی لیئے جہاں قرآن نے یہ فرمایا:”اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی“تم مردوں کو سُنا نہیں سکتے،وہاں ساتھ میں یہ بھی فرمادیا:”اِنۡ تُسْمِعُ اِلَّا مَنۡ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا“یعنی تم صرف مؤمنوں کو ہی سُناسکتے ہوجس سے معلوم ہوا کہ وہاں مردوں سے مراد کافر تھے۔مرقات نے یہاں فرمایا کہ میت اپنے دینے والوں،نماز پڑھنے والوں،اٹھانے والوں اور دفن کرنے والوں کو جانتا پہچانتا ہے۔حضرت عائشہ صدیقہ گنبدِ خضریٰ میں حضرت عمر کے دفن ہونے کے بعد پردے کے ساتھ اندر جاتی تھیں،اور فرماتی تھیں کہ میں عمر سے حیا کرتی ہوں،معلوم ہوا کہ میت دیکھتی بھی ہے،امام صاحب نے میت کے سننے میں توقف نہیں کیا بلکہ سننے کی نوعیت میں جیسا کہ اسی جگہ مرقاۃ میں ہے۔دوسرے یہ کہ بعد موت قوتیں بڑھ جاتی ہیں کہ ہزار ہا من مٹی میں دفن ہونے کے باوجود میت لوگوں کے جوتوں کی آہٹ سن لیتی ہے تو جو انبیاء اور اولیاء زندگی میں مشرق و مغرب دیکھتے ہوں وہ بعد وفات فرش و عرش کی یقینًا خبر رکھتے ہیں۔حدیث شریف میں ہے کہ ہر جمعرات کو میت کی روح اپنے عزیزوں کے گھر پہنچ کر اُن سے ایصال ثواب کی درخواست کرتی ہے(اشعۃ اللمعاتباب زیارۃ القبور) معراج کی رات سارے نبی بیت المقدس میں اور پھر آنًا فانًا آسمانوں پر موجود تھے یہ ہے رُوحِ میت کی رفتار۔
۲؎ اس عبارت سے دو مسئلے معلوم ہوئے:ایک یہ کہ حسابِ قبر سب لوگوں کے لوٹ آنے کے بعد شروع ہوتا ہے لہذا اگر کوئی شخص قبر پر ہی رہے تو الله کی رحمت سے امید ہے کہ میت سے حساب نہ ہوگا اسی لیے بعض لوگ بعد دفن سے جمعہ کی شب تک قبر پر حافظ قرآن بٹھالیتے ہیں کہ شاید ان کی موجودگی کی وجہ سے حساب اور تلاوتِ قرآن کی برکت سے عذاب نہ ہو۔دوسرے یہ کہ منکر نکیر فرشتوں میں یہ طاقت ہے کہ بیک وقت ہزاروں جگہ جاسکتے ہیں،ہزار ہا قبر وں میں ایک آن میں موجود ہو کر سب مردوں سے حساب کرلیتے ہیں اسی کو حاضر ناظر کہا جاتا ہے،لہذا اگر انبیاء اولیاء بیک وقت چند جگہ موجود ہوں تو کوئی قباحت نہیں اور نہ یہ عقیدہ شرک ہے۔خیال رہے کہ منکرنکیرمردے میں روح ڈالتے ہیں جس سے وہ زندہ ہو کر بیٹھتا ہے اور کلام کرتا ہے مگر یہ زندگی ہمیں محسوس نہیں ہوسکتی اور جنہیں جلا دیا گیا یا شیر کھا گیا ان کے اجزاءاصلیہ سے روح متعلق کردی جاتی ہے اور اس سے حساب ہوجاتا ہے۔حدیث میں کسی تاویل کی ضرورت نہیں ماں کے پیٹ میں فرشتہ بچہ بنا جاتا ہے،تقدیر لکھ جاتا ہے ماں کو خبر نہیں ہوتی عالمِ امر کی چیزیں اِن آنکھوں سے نہیں دیکھی جاسکتیں۔
۳؎ یہ”ھٰذَا الرَّجُل”کی تفسیرہے جو حضور نے خود فرمائی کسی راوی کی تفسیر نہیں ورنہ وہ رسول الله یا نبی الله فرماتے۔(مرقاۃ)اس سے چند مسئلے معلوم ہوئے: ایک یہ کہ حسابِ قبر حضور سے نہیں لیا گیا کیونکہ حضور ہی کی پہچان کا تو حساب ہے پھر آپ سے کیسے ہوتا۔دوسرے یہ کہ قبر میں ہر مردے کو قریب سے حضور کی زیارت کرائی جاتی ہے۔جیسا کہھذا سے معلوم ہوا،ھذا وہاں بولتے ہیں جہاں چیز نظر بھی آرہی ہو اور قریب بھی ہو۔تیسرے یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیک وقت سب کی قبو ر میں پہنچ سکتے ہیں،یاسب كو بیک وقت نظر آسکتے ہیں جیسے سورج کی شعاعیں بیک وقت لاکھوں جگہ موجوداور بیک وقت خود ہر جگہ سے نظر آتا ہے اس سے حاضر ناظر کا مسئلہ حل ہوا۔چوتھے یہ کہ فرشتے خود حضور ہی کی زیارت کراتے ہیں نہ کہ آپ کے فوٹو کی کیونکہ فوٹو نہرَجُل ہے،نہ اس فوٹو کا ناممحمدہے،نہ وہ فوٹونبی ہے جیسے پتھر کو خدا کہنا شرک ہے ایسے ہی کسی فوٹو کو نبی بتانا بھی کفر ہے،عشاق اس دیدار قبر کی بنا پر موت کی تمنا کرتے ہیں اور عاشقوں کی موت کو عرس کہا جاتا ہے یعنی برات کا دن یا دولہا کی دید کی عید کا دن۔
۴؎ یعنی جس کا خاتمہ ایمان پر ہوا اس نے حضور کو دیکھا ہو یا نہ دیکھا ہو نورِ ایمانی سے پہچان لیتا ہے اور تڑپ کر پکارتا ہے کہ یہی وہ ہیں جن کا میں نے کلمہ پڑھا تھا۔بعض عشاق کہہ بیٹھتے ہیں کہ میں نے عمر بھر ان کو رسول الله مانا،اب اُن سے پوچھو مجھے اپنا اُمتی کہتے ہیں یانہیں جیسا کہ بعض صوفیاء کے کشف سے ثابت ہے۔
۵؎ الله نے ہر بندے کے دو ٹھکانے رکھے ہیں،ایک جنت میں ایک دوزخ میں کافر اپنے ٹھکانے پربھی قبضہ کرتا ہے اور مؤمن کے دوزخی ٹھکانے پر بھی اور مؤمن جنت میں اپنا اور کافر کاجنتی ٹھکانہ سنبھالتا ہے رب فرماتا ہے:” وَ اَوْرَثَنَا الْاَرْضَ“اور فرماتا ہے:”اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ“۔ یہاں زمین سے جنت کی زمین مراد ہے اور وراثت سے کافر کے حصہ کی ملکیت مراد ہے وہی اس حدیث کا مقصد ہے یعنی اگر تو جناب مصطفے کو یہاں نہ پہچانتا تو دوزخ میں یہاں رہتا،یہ اس لئے کہا جاتا ہے تاکہ مؤمن کی خوشی دوبالا ہوجائے۔
۶؎ یعنی میت اپنے قبر میں سے دوزخ و جنت کو آنکھوں سے دیکھتا ہے حالانکہ یہ دونوں اس کی قبر سے کروڑوں میل دور ہیں جب مردے کی دور بینی کا یہ عالم ہے تو اگر وہ ساری زمین اور زمین والوں کو دیکھے تو کیا بعید ہے،آج حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہراُمّتی کے ہرحال کو دیکھ رہےہیں۔اور ان کی ہر بات سُن رہے ہیں اسی لئے ہر نمازی ہر جگہ سے انہیں نماز میں سلام کرتا ہے کہتا ہے”السَّلَامُ عَلَیْكَ اَیُّہَا النَّبِیُ“۔۷؎ اس سےمعلوم ہوتا ہے کہ قبر میں یہ اشارہ حسّیہ ہوتا ہے نہ کہ عقلیہ اور وہمیہ یعنی فرشتے جمالِ محمدی دکھا کر پوچھتے ہیں محض ذہنی،وہمی چیز کی طرف اشارہ نہیں کرتے کیونکہ کافر حضور سے خالی الذہن ہے اگر اس کے سامنے جمال محمد ی نہ ہوتا تو وہ تعجب سے کہتا کسے پوچھتے ہو؟ یہاں تو کوئی بھی نہیں یہ حدیث حضور کے حاضرناظر ہونے کی ایسی قوی دلیل ہے کہ منکرین سےان شاء الله اس کا جواب نہ بنے گا،سورج بیک وقت لاکھوں آئینوں میں جلوہ گری کرسکتا ہے تو نبوت کا سورج بھی لاکھوں قبروں کو بیک وقت چمکا سکتا ہے۔
۸؎ اگرچہ کافر نے عمر بھر حضور کو دیکھا ہو مگر قبر میں نہ پہچان سکے گا جیسے ابوجہل،ابولہب وغیرہ کیونکہ وہاں حضور کی پہچان رشتہ ٔ ایمانی سے ہے،لطف تو یہ ہے کہ کافر وہاں اپنا کفر بھی بھول جائے گا،یہ نہ کہہ سکے گا کہ میں انہیں اپنے جیسا بشر یا بڑا بھائی یا جادو گر و مجنوں کہتا تھا،بلکہ گھبرا کر کہے گا کہ مجھے یاد نہیں کہ میں نے انہیں کیا کہا تھا جو اور لوگ کہتے تھے وہی میں نے بھی کہا ہوگا۔
۹؎ “تَلَیْتَ“اصل میں تَلَوْتَ تھادَرَیْتَ کی و جہ سے اس کی “وَ”بھی “یَ”سے بدل گئی یعنی ان کی نبوت پر تو عقلی دلائل بھی قائم تھے،ان کے معجزات وغیرہ اور نقلی دلائل بھی آیاتِ قرآنیہ۔تو نے زندگی میں نہ تو انہیں عقل سے پہچانا،نہ قرآن کے ذریعہ مانا،نہ علماء کی پیروی کی۔ظاہر یہ ہے کہ گفتگو سارے ہی کافروں اور منافقوں سے ہے،اس میں کسی تاویل وغیرہ کی ضرورت نہیں۔
مأخذ.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:126