عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ عَنِ النَّبِيِّ -صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ: “الْمُسْلِمُ إِذَا سُئِلَ فِي الْقَبْرِ، يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، فَذٰلِكَ قَوْلُهٗ: يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ آمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَفِيْ رِوَايَةٍ عَنِ النَّبِيِّ -صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:”{يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِت ِنَزَلَتْ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ، يُقَالُ لَهٗ: مَنْ رَبُّكَ فَيَقُوْلُ: رَبِّيَ اللّٰهُ ، وَنَبِيِّيْ مُحَمَّدٌ”. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت براء ابن عازب سے ۱؎ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی کہ فرمایا مسلمان سے جب قبر میں پوچھ گچھ ہوتی ہے تو وہ گواہی دے اٹھتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں محمد اللہ کے رسول ہیں ۲؎ تو یہ ہی رب کا فرمان ہے کہ اللہ مؤمنوں کو مضبوط بات پر قائم رکھتا ہے دنیاوی زندگی میں اور آخرت میں ۳؎ اورحضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک روایت یہ ہے کہ فرمایا کہ یہ آیت عذابِ قبر کے متعلق نازل ہوئی ۴؎ مردے سے کہا جاتا ہے کہ تیرا رب کون تو وہ کہتا ہے میرا رب اللہ اور میرے نبی محمد ہیں ۵؎ (مسلم و بخاری).
شرح حديث.
۱؎ آپ کا نام براءکنیت ابو عمارہ ہے،انصاری حارثی ہیں،خندق اورغزوۂ احد وغیرہ ۱۵غزووں میں حضور کے ساتھ رہے۔عہدفاروقی میں کوفہ میں قیام فرمایا، ۲۴ھ میں “رے” آپ ہی نے فتح کیا،عہد مرتضوی میں جنگِ جمل صفین اور نہروان میں حضرت علی مرتضیٰ کے ساتھ تھے،کوفہ میں وفات ہوئی۔
۲؎ پوچھنے والے منکر نکیر دو فرشتے ہیں جو توحید و رسالت اور دین کا امتحان لیتے ہیں یہ جواب عام مؤمنوں کا ہے جو یہاں ارشاد ہوا،بعض عاشق جمالِ مصطفوی دیکھتے ہی اُٹھ کر فدا ہوجاتے ہیں اور ایسا طواف کرتے ہیں جیسا پروانہ شمع کا یا حاجی کعبہ کا جیساکہ بزرگوں کی تواریخ سے ثابت ہے کہ انہوں نے خواب میں لوگوں کو اپنے سوال کی تفصیل وجد انگیز طریقہ سے بتائی۔
۳؎ یہاں آخرت سے مراد قبر ہے یعنی قبر میں کوئی شخص اپنی کوشش سے کامیاب نہیں ہوسکتا محض رب کے کرم سے کامیابی ملے گی۔یعنی مؤمن وں کو زندگی اور قبر میں کلمۂ شہادت پراللہ تعالٰی ہی ثابت قدم رکھتا ہے ورنہ دنیا کے بہت سے حالات اور قبر کے سخت سوالات اُسے پھسلانے والے ہیں۔قول ثابت سے مراد کلمہ طیبہ ہے چونکہ قبر میں صرف عقائد کا امتحان ہے اس لئے اعمال کا ذکر نہ ہوا۔
۴؎ یعنی قبر کے عذاب و ثواب کے ثبوت میں ورنہ یہ آیت مؤمن وں کے بارے میں آئی ہے جو عذابِ قبر سے محفوظ ہیں لہذا حدیث پر کوئی ا عتراض نہیں۔
۵؎ دنیا میں امتحان کے سوالات پہلے چھپائے جاتے ہیں تاکہ کوئی جواب سوچ نہ لائے۔ہمارے حضور نے اس امتحان کے سوالات بھی آؤٹ کردیئے،ان کے جوابات بھی بتادیئے،خدا کرے اس وقت اَوسان ٹھکانے رہیں اور یہ بتائے ہوئےصحیح جوابات یاد آجائیں۔
مأخذ.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:125
حدیث نمبر 125
06
May