وَعَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰه ِصَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَتَذَاكَرُ مَا يَكُوْنُ إِذْ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا سَمِعْتُمْ بِجَبَلٍ زَالَ عَن مَكَانَهٗ فَصَدِّقُوْا وَإِذَا سَمِعْتُمْ بِرَجُلٍ تَغَيَّرَ عَنْ خُلُقِهٖ فَلَا تُصَدِّقُوْا بِہٖ فَإنَّهٗ يَصِيْرُ إِلٰى مَا جُبِلَ عَلَيْهِ “. رَوَاهُ أَحْمَدُ
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت ابودراء سے فرماتے ہیں کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں تھے اور جو کچھ ہوتا ہے اس کا تذکرہ کررہے تھے ۱؎ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم سنو کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل گیا تو مان لو اور اگر یہ سنو کہ کوئی آدمی جبلی عادت سے بدل گیا تو نہ مانو وہ پھر اسی طرف لوٹ جائے گا جس پر پیدا ہوا ۲؎ (احمد)
شرح حديث.
۱؎ کہ واقعاتِ عالم گذشتہ فیصلے کے مطابق ہورہے ہیں یا اتفاقًا مگر یہ تذکرہ مناظرانہ رنگ میں نہ تھا بلکہ تحقیق کے لیئے اسی لیئے حضور اکرم سنتے رہے منع نہ فرمایا بلکہ ایک مسئلے کی وہ تحقیق فرمادی۔معلوم ہو اکہ علمِ کلام پڑھنا ممنوع نہیں،مسئلۂ تقدیر میں جھگڑنا منع ہے جیساکہ گزشتہ احادیث سےمعلوم ہوا۔
۲؎ خلاصۂ مسئلہ یہ ہوا کہ واقعاتِ عالم گذشتہ فیصلے کے مطابق ہو رہے ہیں،اور وہ فیصلے اٹل ہیں جن کی تبدیلی ناممکن ہے۔خیال رہے کہ انسان کی دو حالتیں ہیں:ذاتی اور وصفی،وصفی حالات دن رات دن بدلتے رہتے ہیں۔کافر مؤمن بن جاتے ہیں،فاسق متقی،بخیل سخی ہوجاتے ہیں،بزدل بہادر،کبھی بزرگوں کی صحبت سے،کبھی علم کی برکت سے،کبھی یوں ہی محض رب کی قدرت سے،مگر اصلی حالت کبھی نہیں بدل سکتی اگر کبھی عارضی طور پر بدل بھی گئی تو اسے بقا نہ ہوگا آگ پر پانی گرم ہوجاتا ہے مگر وہاں سے ہٹتے ہی پھر ٹھنڈا یہاں اصلی حالت کا ذکرہے۔اور جبلّت سے وہ خصلت مراد ہے جو علم الٰہی میں آچکی جس میں تغیروتبدل نا ممکن ہے۔
مأخذ.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:123
حدیث نمبر 123
06
May