وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوْا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ وَيُقِيْمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوْا الزَّكَاةَ فَإِذَا فَعَلُوْا ذٰلِكَ عَصَمُوْا مِنِّيْ دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّ الْإِسْلَامِ وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللهِ. (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ) إِلَّا أَنَّ مُسْلِمًا لَمْ يَذْكُرْ» إِلَّا بِحَقِّ الْإِسْلَامِ.
ترجمه.
روایت ہے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے فرماتے ہیں کہ فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نےکہ مجھے حکم دیا گیا کہ لوگوں سے جنگ کروں تاکہ گواہی دیں ۱؎ کہ رب کے سواکوئی معبودنہیں اورمحمد الله کے رسول ہیں اورنماز قائم کریں زکوۃ دیں ۲؎ جب یہ کرلیں گے تو مجھ سے اپنے خون و مال بچالیں گے۳؎ سواءاسلامی حق کے ۴؎ اُن کا حساب الله کے ذمہ ہے ۵؎ اس میں بخاری مسلم کا اتفاق ہےمگرمسلم نے اسلامی حق کا ذکر نہ کیا۔
شرح حديث.
۱؎ یہاں حَتّٰی بمعنی کے ہے جیسے”اسلمتُ حتی ادخل الجنۃ“یعنی مجھے حکم الٰہی ہے کہ ملک گیری یا مال گیری کی نیت سے جہاد نہ کروں بلکہ لوگوں کو ہدایت دینے کی نیت سے کروں۔اس صورت میں حدیث پر نہ کوئی اعتراض ہے کہ یہ آیات قرآنیہ کے خلاف ہے اورالناس سے مراد سارے کفار ہیں۔لہذا یہ حتی انتہاء کا نہیں۔خیال رہے کہ مشرکین عرب کے لئے حکم جزیہ نہیں یا وہ ایمان لاویں یا قتل و قید و عبدیت وغیرہ۔رب فرماتا ہے:”وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ“عرب کے اہل کتاب اور عجم کے تمام کفار کے لئے یا ایمان یا جزیہ ورنہ قتل و قید وغیرہ رب فرماتا ہے:”حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ“مرتد کے لئے یا اسلام یا قتل ہے نہ جزیہ نہ قید رب فرماتا ہے:”تُقَاتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُونَ“۔باغیوں کے لیے یاقتل یا بغاوت سے توبہ،رب فرماتا ہے:”فَقٰتِلُوا الَّتِیۡ تَبْغِیۡ حَتّٰی تَفِیۡٓءَ اِلٰۤی اَمْرِ اللّٰهِ“لہذا آیات و احادیث متفق ہیں۔
۲؎ چونکہ اس وقت تک روزہ،جہاد وغیرہ کے احکام نہ آئے تھے،اسی لئے ان کا ذکر نہ ہوا اگر کوئی نماز یا زکوۃ کا انکارکرے تو کافر ہے اس پر کفار کا سا جہاد ہوگا۔تارکین نماز و زکوۃ کی گو شمالی کرنی ہوگی۔
۳؎ چونکہ اس زمانہ مبارک میں اسلام میں نئے فرقے نہ بنے تھے،کلمہ،نماز و زکوۃ ایمان کی علامت تھی،اس لئے فرمایا کہ جو یہ تین کام کرے اس کا جان و مال محفوظ ہے،اب بہت مرتد فرقے کلمہ،نماز،زکوۃ پر کاربند ہیں مگر مرتد ہیں ان پر ارتداد کا جہاد ہوگا۔جیسے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مسیلمہ کذاب کے معتقدین پر جہاد کیا اب بھی قادیانیوں وغیرہ مرتدین کا یہ ہی حکم ہے۔
۴؎ یعنی اگر اسلام لاکرقتل،زنایا ڈکیتی وغیرہ کریں تو قتل کے مستحق ہوں گے کہ یہ اسلام کا حق ہے یہ قتل کفر نہ ہوگا۔
۵؎ یعنی اگر کوئی زبانی کلمہ ظاہری نماز و زکوۃ ادا کرے تو ہم اس پر جہاد نہ کریں گے،اگر منافقت سے یہ کام کرتا ہے تو رب اسے سزا دے گا۔اسلامی جہاد منافقوں پر نہیں۔
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:12
حدیث نمبر 12
24
Apr