تقدیر پر ایمان(مشکوۃ)

حدیث نمبر 119

وَعَنْ أَبِي الدَّرْدَاءَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «خَلَقَ اللّٰهُ آدَمَ حِيْنَ خَلَقَهٗ فَضَرَبَ كَتِفَهُ الْيُمْنٰى فَأَخْرَجَ ذُرِّيَّةً بَيْضَاءَ كَأَنَّهُمُ الذَّرُّ وَضَرَبَ كَتِفَهُ الْيُسْرٰى فَأَخْرَجَ ذُرِّيَّةً سَوْدَاءَ كَأَنَّهُمُ الْحُمَمُ فَقَالَ لِلَّذِيْ فِيْ يَمِيْنِهٖ إِلَى الْجَنَّةِ وَلَا أُبَالِيْ وَقَالَ لِلَّذِيْ فِيْ کَتِفِہِ الْیُسْرٰی إِلَى النَّارِ وَلَا أُبَالِيْ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ
روایت ہے حضرت ابودرداء سے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی فرمایا جب اللہ نے آدم کو پیدا کیا تو انکے داہنے کندھے پر دستِ قدرت لگایا جس سے سفید رنگ کی اولاد چیونٹیوں کی طرح نکالی اور ان کے بائیں کندھے پر مارا تو کالی اولاد کوئلے کی طرح نکالی ۱؎پھر داہنے والوں کے متعلق فرمایا کہ یہ جنت کی طرف ہیں مجھے پرواہ نہیں بائیں کندھے والوں کے متعلق فرمایا یہ دوزخ کی طرف ہیں مجھے پرواہ نہیں۔۲؎ (احمد)
شرح حديث.
۱؎ یہ واقعہ کئی بار ہوا ایک بار میں ساری ذریت کی پیشانی میں نو ر فطری کی چمک تھی اس بار کفار بالکل سیاہ تھے اورمؤمن سفید،لہذا احادیث میں تعارض نہیں۔(مرقاۃ)ان کے دل کا حال چہروں پر نمودار تھا ایسا ہی قیامت میں ہوگا کہ کفار کالے اور مؤمن سفید ہوں گے۔اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے:ایک یہ کہ آدم علیہ السلام کی پشت میں تمام انسانوں کی روحیں اور اجزاءاصلیہ موجود تھے۔داہنی طرف مؤمنوں کے اور بائیں طرف کافروں کے۔دوسرے یہ کہ آدم علیہ السلام کو تمام جنتیوں اور دوزخیوں کا علم دیا گیا۔
۲؎ یعنی مخلوق کے جنتی ہونے سے ہمارا کچھ نفع نہیں اور جہنمی ہونے سے کچھ نقصان نہیں خود ان کا ہی نفع نقصان ہے۔نیز اللہ تعالٰی پر کوئی چیز واجب نہیں نہ اس سے کوئی پوچھ گچھ کرسکتا ہے۔
مأخذ.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:119