تقدیر پر ایمان(مشکوۃ)

حدیث نمبر 117

وَعَنْ عَلِيٍّ قَالَ: سَأَلَتْ خَدِيجَةُ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ وَلَدَيْنِ مَاتَا لَهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : “هُمَا فِي النَّارِ”، قَالَ: فَلَمَّا رَأَى الْكَرَاهَةَ فِيْ وَجْهِهَا قَالَ: “لَوْ رَأَيْتِ مَكَانَهُمَا لأَبْغَضْتِهِمَا”، قَالَتْ: يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ فَوَلَدِيْ مِنْكَ، قَالَ: “فِي الْجَنَّةِ”، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “إِنَّ الْمُؤْمِنِيْنَ وَأَوْلَادَهُمْ فِي الْجَنَّةِ، وَإِنَّ الْمُشْرِكينَ وَأَوْلَادَهُمْ فِي النَّارِ”، ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللّٰهُ وَالَّذِيْنَ آمَنُوْا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ .رَوَاهُ أَحْمَدُ.
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت علی سے فرماتے ہیں کہ بی بی خدیجہ نے ۱؎ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے بچوں کے متعلق پوچھا جو زمانہ جاہلیت میں فوت ہوچکے تھے ۲؎ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ دونوں آگ میں ہیں ۳؎ فرماتےہیں جب حضور علیہ السلام نے ان کے چہرے میں غم کے آثار دیکھے تو فرمایا کہ اگر تم ان کا ٹھکانہ دیکھتیں تو ان سے نفرت کرتیں ۴؎ انہوں نےعرض کیا اچھا آپ سے جو میرے بچے ۵؎ ہیں فرمایا وہ جنت میں ہیں،پھرحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان اور انکی اولاد جنت میں ہے ۶؎ اور کفار اور ان کی اولاد دوزخ میں پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی اور جو ایمان لائے اور ان کی اولاد ان کے تابع ہے ۷؎ (احمد)
شرح حديث.
۱؎ آپ مسلمانوں کی پہلی ماں ہیں،نام شریف خدیجہ بنتِ خویلد ابن اسد ہے،قرشیہ ہیں،قصٰی ابن کلاب میں حضور سے مل جاتی ہیں،اوّلًا ہالہ ابن زرارہ کے نکاح میں تھیں،پھر عتیق ابن عائز سے نکاح کیا،پھر چالیس سال کی عمر میں حضور کے نکاح میں آئیں،حضور نے سب سے پہلے انہیں سے نکاح کیا اور ان کی موجودگی میں کسی بیوی سے نکاح نہ فرمایا،سب سے پہلے آپ ہی حضور پر ایمان لائیں،حضور کی ساری اولاد بجز حضرت ابراہیم آپ ہی سے ہے۔۲۵ سال حضور کے نکاح میں رہیں ۶۵ سال کی عمر پا کر ہجرت سے چار سال پہلے مکہ معظمہ میں وفات پائی،جنت معلٰے کے دوسرے حصے میں دفن کی گئیں،قبر شریف زیارت گاہ خلق ہے،فقیر نے حاضری دی ہے۔
۲؎ گزشتہ خاوندوں سے ظہور اسلام سے پہلے۔
۳؎ کیونکہ ان کے باپ بھی مشرک تھے اور اے خدیجہ!اس وقت تم بھی مشرکہ تھیں لہذا نہ وہ خود مؤمن ہوسکے نہ ماں باپ کے تابع ہو کر جنتی۔اس مسئلہ کی تحقیق اسی باب میں بارہا کی جاچکی۔خیال رہے کہ یہ خبر نہیں ہے بلکہ بیانِ قانون ہے یعنی قانونًا تمہارے وہ بیٹے جہنمی ہونے چاہئیں لہذا یہ حدیث ان آیات سے منسوخ ہے جن میں فرمایا گیا کہ ہم بغیر جرم کسی کو عذاب نہیں دیتے۔
۴؎ یعنی تمہیں ان سے مادری محبت اور ان کے عذاب پرغم جبھی تک ہے جب تک تم نے اُن کاٹھکانا دیکھا نہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ جنتی ماں باپ اور دوزخی اولاد میں قطعًا محبت نہ ہوگی،وہاں محبت رشتۂ ایمان سے ہوگی نہ کہ رشتہ جان سے۔
۵؎ طیّب وطاہروقاسم جوبچپن میں فوت ہوگئے،ظہور اسلام سے قبل۔
۶؎ یہ حدیث اس حدیث کی ناسخ ہے جس میں فرمایا گیا تھا کہ مسلمانوں کے چھوٹے بچے اپنے مقدرہ اعمال کے مطابق جنتی یا دوزخی ہیں۔
۷؎ اس آیت سے دو مسئلےمعلوم ہوئے:ایک یہ کہ اگر ماں باپ میں سے کوئی مسلمان ہو تو بچہ مؤمن ہوگا۔دوسرے یہ کہ بچہ ماں باپ کے ساتھ رہے گا،ماں باپ کو کمی نہ دی جائے گی۔
مأخذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:117