وَعَنْ نَافِعٍ أَنَّ رَجُلًا أَتَى ابْنَ عُمَرَ فَقَالَ: إِنَّ فُلَانًا يَقْرَأُ عَلَيْكَ السَّلَامَ، فَقَالَ: إِنَّهٗ بَلَغَنِيْ أَنَّهٗ قَدْ أَحْدَثَ، فَإِنْ كَانَ قَدْ أَحْدَثَ فَلَا تُقْرِئْهٗ مِنِّي السَّلَامَ، فَإِنِّيْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِاللهِ -صَلَّى اللَّهُاللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَقُوْلُ: “يَكُوْنُ فِيْ أُمَّتِيْ -أَوْ فِيْ هٰذِهِ الأمَّةِ- خَسْفٌ ومَسْخٌ، أَوْ قَذْفٌ فِي أَهْلِ الْقَدَرِ”. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهْ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ.
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت نافع سے ۱؎ کہ ایک شخص حضرت ابن عمر کے پاس آیا بولا کہ فلاں آپ کو سلام کہتا ہے ۲؎ فرمایا میں نے سنا ہے وہ بدعتی ہوگیا ۳؎ اگر واقعی وہ بدعتی ہوگیا تو اسے میرا سلام نہ کہنا ۴؎ میں نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ میری امت میں یا اسی امت میں دھنسنا،صورت بدلنا،پتھر برسنا ہوگا قدریوں میں اسے ترمذی،ابوداؤد،اور ابن ماجہ نے نقل کیا ترمذی نے فرمایا:یہ حدیث حسن غریب ہے ۵؎
شرح حديث.
۱؎ آپ نافع ابن سرجس دیلمی ہیں،سیدنا عبدالله ابن عمر کے آزاد کردہ غلام،جلیل القدر تابعی ہیں۔امام مالک اور دیگر آئمہ نے آپ سے روایتیں کیں،بڑے زاہد،عالم،متقی ہیں۔عبدالله ابن عمر کی اکثر روایتوں کے آپ ہی راوی ہیں، ۱۱۷ھ میں وفات ہوئی۔
۲؎ معلوم ہوا کہ کسی کے ذریعے سلام کہلا کر بھیجناجائز ہے اب بھی بعض لوگ حاجیوں کے ذریعہ حضور علیہ السلام کے روضۂ انور پر سلام کہلواتے ہیں۔
۳؎ یعنی اس نے دین میں نیا عقیدہ ایجادیا اختیار کیا ہے کہ تقدیر کا منکر ہوگیا ہے اور قدریہ بن گیا۔معلوم ہوا کہ قدریہ مذہب بڑا پرانا ہے زمانۂ صحابہ میں پیداہوچکا تھا۔
۴؎ یعنی میری طرف سے جواب سلام نہ پہنچانا۔اس سے چند مسئلے معلوم ہوئے:ایک یہ کہ بدعت سیئہ اُن بُرے عقائد کا نام ہے جواسلام میں ایجادکیے جائیں،جس بدعت یا بدعتی کی سخت برائیاں آئی ہیں اس سے یہی مراد ہے،دیکھو حضرت ابن عمر نے انکار تقدیر کے عقیدے کو بدعت فرمایا۔دوسرے یہ کہ عہد صحابہ میں جو بدعقیدگیاں ایجاد ہوئیں وہ بھی بدعت ہیں کہ قدریہ مذہب اگرچہ اس خیرالقرون میں نمودارہوا مگر بدعت ہوا بدعت کے لئے خیرالقرون کے بعدہوناشرط نہیں،حضرت عمر فاروق نے تراویح کی باقاعدہ جماعت کو جو آپ نے ایجاد فرمائی تھی بدعت حسنہ فرمایا۔تیسرے یہ کہ بدعتی بے دین کو نہ سلام کیا جائے نہ جواب سلام۔
۵؎ یعنی چند اسنادوں سے مروی ہے ایک اسناد سےحسن ہے،دوسری سےصحیح،تیسری سے غریب۔
مأخذ.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:116
حدیث نمبر 116
06
May