تقدیر پر ایمان(مشکوۃ)

حدیث نمبر 111

وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ ذَرَارِيُّ الْمُؤْمِنِيْنَ؟ قَالَ: «مِنْ آبَائِهِمْ». فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ بِلَا عَمَلٍ قَالَ: « اَللهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوْا عَامِلِيْنَ». قُلْتُ فَذَرَارِيُّ الْمُشْرِكِيْنَ قَالَ:« مِنْ آبَائِهِمْ».قُلْتُ:بِلَا عَمَلٍ قَالَ:« اَللهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِيْنَ». رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ
ترجمه حديث.
روایت ہےحضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسےفرماتی ہیں میں نے عرض کیا یارسول اللہ مسلمانوں کے بچے ۱؎ (کہاں جائیں گے) فرمایا وہ اپنے باپ دادوں سے ہیں ۲؎ تو میں بولی یارسول اللہ بغیر عمل فرمایا اللہ جانتا ہے وہ کیا کرتے ۳؎ میں نے عرض کیا تو کفار کے بچے،فرمایا وہ اپنے باپ دادوں سے ہیں ۴؎ میں بولی بغیر کچھ کیئے فرمایا اللہ خوب جانتا ہے جو وہ کرتے ۵؎ (ابوداؤد)
شرح حديث.
۱؎ یعنی جو ہوش سے قبل فوت ہوجائیں وہ کہاں جائیں گے۔
۲؎ یعنی جنتی ہیں اور جنت میں جو درجہ ان کے باپ دادوں کا ہوگا وہی ان کا لہذا حضرت قاسم،ابراہیم وغیرہم حضور علیہ السلام کے ساتھ ہوں گے،اولاد تو بہت اعلٰی قرب رکھتی ہے۔ان شاء اللهحضور کو چاہنے والے حضور کے ہمراہ ہوں گے،گلدستہ کی گھاس بھی پھول کے طفیل بادشاہ کے ہاتھ میں پہنچ جاتی ہے۔
۳؎ یعنی جنت کے داخلے کے لیے بالفعل عمل ہی شرط نہیں،تقدیری عمل بھی کافی ہے کہ اگر وہ زندہ رہتے تو مسلمان کے بچے تھے،اچھے ہی کام کرتے،اس بنا پر جنت میں جائیں گے بلکہ بعض گنہگارنیک کاروں کے طفیل جنتی ہیں جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے۔
۴؎ یعنی اُن کے ساتھ دوزخ میں۔
۵؎ کہ اگر وہ زندہ رہتے تو کافر کے بچے تھے،کفر ہی کرتے۔جمہور علماء کا قول یہ ہے کہ یہ جزو اُن آیات سے منسوخ ہے جن میں فرمایا کہ بلا جُرم دوزخ نہ دی جائے گی یہ بارہا عرض کیا جاچکا ہے۔رب تعالٰی فرماتاہے:”وَمَاکُنَّا مُعَذِّبِیۡنَ“الآیہ۔
مأخذ.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:111