تقدیر پر ایمان(مشکوۃ)

حدیث نمبر 109

وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : سِتَّةٌ لَعَنْتُهُمْ وَلَعَنَهُمُ اللهُ وَكُلُّ نَبِيٍّ يُجَابُ: اَلزَّائِدُ فِي كِتَابِ اللهِ وَالْمُكَذِّبُ بِقَدَرِ اللهِ وَالْمُتَسَلِّطُ بِالْجَبَرُوْتِ لِيُذِلَّ مَنْ أَعَزَّهُ اللهُ و لِيُعِزَّ مَنْ أَذَلَّهُ اللهُ وَالْمُسْتَحِلُّ لِحَرَمِ اللهِ وَالْمُسْتَحِلُّ مِنْ عِتْرَتِيْ مَا حَرَّمَ اللهُ وَالتَّارِكُ لِسُنَّتِيْ. رَوَاہُ الْبَیْھَقِیُّ فِی الْمَدْخَلِ وَرَزِیْنٌ فِی کِتَابِہٖ.
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت عائشہ سے فرماتی ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھ آدمی وہ ہیں جن پر میں نے اور اللہ نے لعنت کی ۱؎ اور ہر نبی مقبول الدعاء ہے ۲؎اللہ کی کتاب میں زیادتی کرنے والا ۳؎اللہ کی تقدیر کا انکاری،جبرًا قبضہ جمانے والا تاکہ انہیں ذلیل کرے جنہیں اللہ نے عزت دی او ر انہیں عزت دے جنہیں اللہ نے ذلیل کیا۴؎ اوراللہ کے حرام کو حلال سمجھنے والا۵؎ اور میری آل کے متعلق وہ باتیں حلال سمجھنے والا جنہیں اللہ نے حرام کیا۶؎ اور میری سنت کو چھوڑنے والا۷؎
شرح حديث.
۱؎ لعنت کے معنی ہیں دُوری جب اس کا فاعل بندہ ہو تو معنٰے ہوتے ہیں دُوریٔ رحمت کی بددعا کرنا،اور اگر فاعل ربّ ہو تو معنٰے ہوتے ہیں رحمت سے دور کرنا،کسی مسلمان پر نام لے کر لعنت جائز نہیں،وصفِ اجمالی سے لعنت جائز جیسے جھوٹوں اور زانیوں پر خدا کی لعنت،نیز اُن کفار پر بھی لعنت جائز ہے جن کا کفر پر مرنا یقینی ہوچکا جیسے ابوجہل و ابولہب وغیرہ۔لِعان میں لعنت و صف ہی پر ہے اس حدیث میں بھی یہی لعنت ہے۔
۲؎ یعنی ہر نبی کی ہر دعا قبول اگر ان کی کوئی دعا خلاف قضاء وقدر ہوجائے تو ان کو دعا مانگنے سے روک دیا جاتاہے ردّ وہ بھی نہیں ہوتی،رب نے ابراہیم علیہ السلام سے فر مایا”يَاإِبْرَاهِيمُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا “۔
۳؎ قرآن ہو یا کوئی آسمانی کتاب لفظی زیادتی کرے یامعنوی۔اس سے وہ لوگ عبرت پکڑیں جنہوں نے آج قرآن کی تفسیر کو کھیل سمجھ رکھا ہے اور آیات کے وہ معانی کررہے ہیں جو آج تک کسی مؤمن کے خیال میں بھی نہ تھے،علماء فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی شاذ قراتیں حدیث کے حکم میں ہیں وہ قرآن نہیں نہ اس کی تلاوت جائز۔(مرقاۃ)
۴؎ یعنی لوگوں کے خلاف مرضی اُن کا ناجائز حاکم بن جانے والا جیسا آج کل علی العموم ہورہا ہے۔خیال رہے کہ قوم یا ملک کے بگڑنے کی صورت میں اس کو سنبھالنے کے لیے زمامِ حکومت ہاتھ میں لے لینا سنت یوسف علیہ السلام ہے۔یہاں وہ حکام مراد ہیں جو دین و ملک کو بگاڑنے کے لیے حاکم بنیں،فاسقوں کو مرتبے دیں،علماء واولیاء کو ذلیل کرنے کی کوشش کریں۔
۵؎ یعنی مکہ مکرمہ کے حدود میں فتنہ،فساد،شکار اور قطع اشجار وغیرہ وہ کام کرنے والا جو شریعت نے علی العموم یا وہاں حرام کیے۔
۶؎ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کی بے حرمتی،اُن پر ظلم و ستم کرنے والا،عترت رسول اللہ اولادِ فاطمہ زہرا ہے ان کی تعظیمداخل فی الدین ہے،جب قرب کعبہ کی وجہ سے حرم کی زمین کا احترام ہے تو قرابت ِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے سادات کرام کا احترام یقینًالازم ہے،یا اس جملے کے معنے یہ ہیں کہ جو میری اولاد ہو اور اللہ کے حرام کو حلال جانے اس پر لعنت ہے۔(اشعۃ اللمعات)کہ اگرچہ جرم سب کے لیے بُرا مگر سادات کے لیے زیادہ بُرا،اس سے سید حضرات کو عبرت پکڑنی چاہیے وہ اپنے باپ دادوں کا نمونہ بنیں صرف سیّد ہونے پر فخر نہ کریں۔
۷؎ حقیر جان کر سنتِ رسول اللہ مؤکدہ ہو یا غیر مؤکدہ زائدہ ہو یاھُدٰی اس کو حقیر جاننا،مذاق اُڑانا قطعًا کفر ہے۔سنتھُدٰی کا ہمیشہ چھوڑنے والاحضور کی ایک شفاعت سےمحروم ہے۔
مأخذ.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:109