تقدیر پر ایمان(مشکوۃ)

حدیث نمبر 106

وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ يَقُوْلُ: « یَکُوْنُ فِیْۤ اُمَّتِیْ خَسْفٌ وَّمَسْخٌ وَذٰلِکَ فِی الْمُکَذِّبِیْنَ بِالْقَدْرِ » . رَوَاُہ اَبُوْدَاؤدَ وَرَوَی التِّرْمِذِیُّ نَحْوَہٗ
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت ابن عمر سے فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ میری امت میں دھنسنا اور صورتیں بگڑنا ہوگا اور یہ تقدیر کے منکروں پر ہوگا ۱؎ اسے ابوداؤد نے روایت کیا ترمذی کی روایت اس کی مثل ہے۔
شرح حديث.
۱؎ ظاہر یہ ہے کہ یہاںخسف اورمسخ کے حقیقی معنٰے ہی مراد ہیں اور واقعی آخر زمانہ میں بعض منکرین تقدیر قارون کی طرح زمین میں دھنسائے جائیں گے اور بعض ایلہ والوں کی طرح بندر اورسوربنیں گے۔خیال رہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی تشریف آوری کے بعد اس قسم کے عام عذاب تا قیامت بند ہوگئے خصوصی عذاب آئیں گے،لہذا یہ حدیث اس آیت کے خلاف نہیں”مَا کَانَ اللهُ لِیُعَذِّبَہُمْ”کہ وہاں عمومی عذاب کی نفی ہے اور یہاں خصوصی کا ثبوت،بعض نے فرمایا کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر میری اُمّت میں مسخ اور خسف ہوتا تو قدریوں میں ہوتا۔(لمعات)بعض نے فرمایا کہ قدریوں کو یہ عذاب قیامت میں ہوگا،کہ میدانِ محشر میں ان کے منہ کالے ہوں گے اور پلصراط سےگراکرجہنم میں دھنسائے جائیں گے(مرقاۃ)مگر پہلے معنے زیادہ قوی ہیں۔
مأخذ.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:106