وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلّٰى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكْثِرُ أَنْ يَقُولَ: «يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ»فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ الله اٰمَنَّا بِكَ وَبِمَا جِئْتَ بِهٖ فَهَلْ تَخَافُ عَلَيْنَا قَالَ: «نَعَمْ إِنَّ الْقُلُوبَ بَيْنَ أُصْبُعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللهِ يُقَلِّبُهَا كَيْفَ يَشَاءُ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ
ترجمه حديث.
روایت ہےحضرت انس سے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ فرماتے تھے اے دلوں کے پھیرنے والے میرا دل اپنے دین پر ثابت رکھ ۱؎ میں نے عرض کیا یا نبی الله ہم آپ پراورآپ کی تمام لائی ہوئی چیزوں پر ایمان لاچکے تو کیا اب بھی آپ ہم پر اندیشناک ہیں ۲؎ فرمایا ہاں لوگوں کے دل الله کی انگلیوں میں سے دوانگلیوں کے بیچ میں جدھر چاہے پھیر دے۳؎ (ترمذی وابن ماجہ)
شرح حديث.
۱؎ یہ دعاتعلیم امّت کے لیے ہے تاکہ لوگ سن کرسیکھ لیں ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دینِ حق سے ہٹ جانا ایسے ہی ناممکن ہے جیسے خدا کا شریک بلکہ جس پر وہ نگاہِ کرم کردیں وہ نہیں پھسل سکتا عثمان غنی سے فرمادیا کہ جو چاہوکرو مگر وہ گناہ نہ کرسکےجیساکہ اگلے مضمون سے ظاہر ہے۔
۲؎ سبحان اللّٰہ!یہ ہے صحابہ کرام کا ایمان وہ دعا سنتے ہی سمجھ گئے کہ یہ دعا ہمارے لیے ہے نہ کہ خود حضور کے اپنے لیے۔خیال رہے کہ عَلَیْنَاسےمرادتاقیامت عام مسلمان ہیں ورنہ بعض صحابہ حضور کے کرم سے اس سے مستثنٰے ہیں۔حضور فرماتے ہیں کہ عمر کے سایہ سے شیطان بھاگتا ہے،حضور کی نگاہ سے ڈگمگاتے جم جاتے ہیں رب تعالٰی فرماتا ہے:”اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ الله لَاخَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوۡنَ“۔
۳؎ يعنی جن و انس کے دل اس کی تفسیر پہلے بارہا گزرچکی۔
مأخذ.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:102
حدیث نمبر 102
06
May