حج و عمرہ سے متعلق مسائل, ی۔دینیات

حج اور شرعی معذور

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ شرعی معذور کہ جس کا وضو باقی نہیں رہتا یا کپڑے پاک نہیں رہتے وہ کس طرح حج ادا کرے گا؟


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب
صورت مسئولہ کے مطابق وہ شخص جس کو کوئی ایسی بیماری ہو کہ ایک وقت پورا ایسا گزر جائے کہ وہ وضو کے ساتھ فرض نماز بھی ادا نہ کرسکے تو وہ معذور ہے اور شرعی معذور کے لیے حکم یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے لیے وضو کرے اور اس فرض نماز کے وقت میں جتنے چاہے فرائض ونوافل ادا کرسکتا ہے لیکن جب فرض نماز کا وقت نکل جائے گا اسی وقت اس سابقہ حدث کے سبب اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔
شرعی معذور کو اگر ایسا عذر ہو کہ جس کے سبب سے جسم یا کپڑے نجس ہو جائے اور یہ ایک درہم سے زیادہ نجس ہو جائے اور جانتا یہ ہے کہ اتنا وقت ہے کہ اس کو دھو کر پاک کپڑوں میں نماز پڑھ لے گا تو دھو کر نماز پڑھنا فرض ہے اور اگر درہم کے برابر ہے تو دھونا واجب ہے اور درہم سے کم ہے تو دھونا سنت ہے۔ اگرمرض ایسا ہے کہ مسلسل نجاست بہہ رہی ہے کہ پاکی کے بعد نماز پڑھتے پڑھتے پھر دوبارہ سے نجس ہو جائے گا تو اب دھونا ضروری نہیں ہے، اسی سے نماز پڑھے اگرچہ مصلیٰ بھی آلودہ ہو۔ البتہ مستحب یہی ہے کہ زخم یا شرمگاہ کے آگے کوئی دوسرا کپڑا یا ٹشو پیپر رکھ لے تاکہ مصلیٰ اور احرام گندے نہ ہوں البتہ اس کے لیے انڈر وئیر یا ڈائپر پہننے کی اجازت نہیں ہے ہاں بے سلی ہوئی لنگوٹ استعمال کی جاسکتی ہے۔
رہا حج تو اس کے دو ارکان ہیں وقوف عرفہ اور طواف زیارت وقوف عرفہ کے لیے تو وضو کی حاجت نہیں اور طواف زیارت کے لئے وضو کرکے کسی بھی نماز کے وقت میں طواف کرے جس کا حکم اوپر مذکور ہے ۔باقی دیگر واجباتِ حج و سنن تو جو عبادت مسجد میں ادا نہیں کی جاتی اس کے لیے طہارت شرط نہیں ہے جیسے سعی ، مزدلفہ میں قیام ، رمی وغیرہ اور اگر عبادات بجا لانی ہو تو اس کے لیے شرعی معذور کی طہارت اور کپڑوں سے متعلق جو حکم ہے اس پر عمل کرکے عبادات بجا لائی جاسکتی ہیں۔
فتاوی ہندیہ میں ہے
”المستحاضة ومن به سلس البول أو استطلاق البطن أو انفلات الريح أو رعاف دائم أو جرح لا يرقأ يتوضئون لوقت كل صلاة ويصلون بذلك الوضوء في الوقت ما شاءوا من الفرائض والنوافل هكذا في البحر الرائق…ويبطل الوضوء عند خروج وقت المفروضة بالحدث السابق. هكذا في الهداية وهو الصحيح“
ترجمہ:مستحاضہ اور وہ جیسے پیشاب جاری رہنے کی بیماری ہو یا دست کی ہو یا ریح نکل جاتی ہوں یا نکسیر جاری ہو یا کوئی زخم ہو جو بند نہ ہوتا ہو تو یہ سب لوگ ہر نماز کے لیے وضو کریں اور اس سے اس وقت میں جو فرض ونفل چاہیں پڑھیں یہ بحر الرائق میں ہے۔معذور کا وضو فرض نماز کا وقت نکلنے سے اسی حدث سے ٹوٹ ہو جاتا ہے جو اولا ًہوچکا یہی ھدایہ میں مذکور ہے اور یہی صحیح ہے ۔(فتاویٰ ھندیہ ،كتاب الطهارة، فصل في تطهير الأنجاس،ج1، ص41، ، دار الفكر بيروت)
ردالمختار میں ہے
”صاحب عذر من به سلس بول لا يمكنه إمساكه او استطلاق بطن او انفلات ريح.. إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة بان لا يجد في جميع وقتها زمناً يتوضؤ و يصلي فيه خالياً عن الحدث ولو حكماً ؛ لان الانقطاع اليسير ملحق بالعدم“
ترجمہ:وہ شخص جس کو سلسل بول ہو یا پیٹ کا بہنا(مسلسل دست) ہو یا ریح کا خارج ہونا ہو جس کا روکنا ممکن نہ ہو،اگر ایک فرض نماز کے مکمل وقت گھیر لے اس طرح کہ اس نماز کے مکمل وقت میں اتنا موقع نہ ملے کہ اسے حدث نہ ہو اور وضو کرکے نماز پڑھ لے اگرچہ حکمًا ،کیوں کہ تھوڑا سا انقطاع (عذر کا رکنا) عدم (نہ رکنے ) کے حکم سے ملحق ہے۔(ردالمختار ،كتاب الطهارة، باب الحيض، مطلب في احكام المعذور، ج1، ص 304، مطبوعہ کوئٹہ)
ردالمختار میں ہے
”(فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق، حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه“
ترجمہ: جب وقت نکل جائے تو وضو باطل ہو جائے گا یعنی سابق حدث ظاہر ہوا تو وضو باطل ہو جائے گا حتی کہ اگر عذر کے ختم ہونے پر وضو کیا اور وقت کے خروج تک عذر نہ ہوا تو وقت نکلنے کے ساتھ وضو باطل نہ ہوگا جب تک کہ دوسرا حدث لاحق نہ ہو یا سابق عذر جاری نہ رہے جیسے موزے پر مسح کا مسئلہ ہے ۔(ردالمختار ،كتاب الطهارة، باب الحيض، مطلب في احكام المعذور، ج1، ص 306، مطبوعہ کوئٹہ)
ھدایہ میں ہے
”واذا خرج الوقت بطل وضوءھم واستانفوا الوضوء لصلوٰۃ الاخری “
ترجمہ:اور جب وقت نکل گیا تو ان معذوروں کا وضو باطل ہوگیا اور دوسری نماز کے لیے سرے سے وضو کریں۔ (ھدایہ ، جلد 1 ، صفحہ 240 ، مطبوعہ کراچی)
بہار شریعت میں ہے:
”وہ شخص جس کو کوئی ایسی بیماری ہے کہ ایک وقت پورا ایسا گزر گیا کہ وضو کے ساتھ نماز فرض ادا نہ کر سکا معذور ہے، اس کا بھی یہی حکم ہے کہ وقت میں وضو کرلے اور آخر وقت تک جتنی نمازیں چاہے اس وضو سے پڑھے، اس بیماری سے اس کا وضو نہیں جاتا، جیسے قطرے کا مرض، یا دست آنا، یا ہوا خارج ہونا،‌ وغیرہ۔۔۔۔۔۔
فرض نماز کا وقت جانے سے معذور کا وُضو ٹوٹ جاتا ہے جیسے کسی نے عصر کے وقت وُضو کیا تھاتو آفتاب کے ڈوبتے ہی وُضو جاتارہا۔“(بہار شریعت ،جلد 1، حصہ 2، صفحہ 389 ، مکتبہ المدینہ کراچی)
فتاویٰ ھندیہ میں ہے
”اذا کان به جرح سائل وقد شد علیه خرفة فاصبھا الدم اکثر من قدر الدم او اصاب ثوبه ان کان بحال او غسله یتنجس ثانیا قبل الفراغ من الصلاۃ جاز ان لایغسله وصلی قبل ان یغسله والا فلا ھذا ھو المختار ھکذا فی المضمرات“
ترجمہ:اگر کسی کا زخم بہتا تھا اور اس پر کپڑا باندھ لیا تھا پھر اس پر قدر درہم سے زیادہ خون لگ گیا یا اس کے پہننے کے کپڑے پر لگ گیا ۔اگر ایسی حالت ہے کہ جو دھوئے تو فارغ ہونے سے قبل دوبارہ نجس ہو جائے گا تو اس کو بغیر دھوئے نماز پڑھنا جائز ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو جائز نہیں ہے ۔یہی مختار ہے اور اسی طرح مضمرات میں مذکور ہے۔(فتاویٰ ھندیہ ، کتاب الطھارۃ ،جلد 1، صفحہ 46، دار الفکر بیروت)
در مختار میں ہے
”وان سال علی ثوبه فوق الدراھم وجاز له ان لایفسد ان کان لو غسله تنجس قبل الفراغ منھا ای الصلاۃ والا یتنجس قبل فراغه فلا یجوز ترک غسله ھو المختار للفتوی“
ترجمہ:اگر درہم سے زیادہ کپڑے پر سیلان ہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ اسے نہ دھوئے اگر وہ اسے دھوئے تو نماز سے فارغ ہونے سے پہلے پھر ناپاک ہو جائے گا ۔اگر فراغت سے پہلے ناپاک نہ ہو تو اس کے دھونے کو ترک کرنا جائز نہیں ہے یہ فتویٰ کے لیے مختار ہے۔(ردالمختار ، کتاب الطھارۃ ،جلد 1، صفحہ 686، دار الکتب العلمیہ بیروت)
بہار شریعت میں ہے :
”معذور کو ایسا عذر ہے جس کے سبب کپڑے نجس ہو جاتے ہیں تو اگر ایک درم سے زِیادہ نجس ہو گیا اور جانتا ہے کہ اتنا موقع ہے کہ اسے دھو کر پاک کپڑوں سے نماز پڑھ لوں گا تو دھو کر نماز پڑھنا فرض ہے اوراگر جانتا ہے کہ نماز پڑھتے پڑھتے پھر اتنا ہی نجس ہو جائے گا تو دھونا ضروری نہیں اُسی سے پڑھے اگرچہ مصلیٰ بھی آلودہ ہو جائے کچھ حَرَج نہیں اور اگر درہم کے برابر ہے تو پہلی صورت میں دھونا واجب اور درہم سے کم ہے تو سنّت اور دوسری صورت میں مطلقاً نہ دھونے میں کوئی حَرَج نہیں ۔“(بہار شریعت، جلد 1 ، حصہ 2، صفحہ 390 ، مکتبہ المدینہ کراچی)
بدائع الصنائع میں ہے
” أن المحرم ممنوع عن لبس المخيط“
ترجمہ:محرم کو سلا ہوا لباس پہننا ممنوع ہے۔ (بدائع الصنائع،کتاب الحج،ج 2،ص 144،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)
فتاویٰ مرکز تربیت افتاء میں ہے:
”جس شخص کو پیشاب کا قطرہ آتا رہتا ہے کہ اس پر ایک وقت پورا ایسا گزر گیا کہ وضو کرکے نماز فرض ادا نہ کرسکا تو وہ معذور ہے اس کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ وقت کے اندر وضو کرے اور وقت کے اخیر حصہ تک جتنی نمازیں اس وضو سے پڑھنا چاہے پڑھے اور جس عبادت کے لئے وضو کی ضرورت پڑتی ہے وہ سب وقت کے اندر ادا کرے قطرے سے اس کا وضو نہیں ٹوٹے گا پھر جب ایک نماز کا وقت گذر جائے تو دوبارہ وضو کرے کہ اس کا وضو وقت گذرتے ٹوٹ جاتا ہے حج کے دو ارکان ہیں وقوف عرفہ اور طواف زیارت وقوف عرفہ کے لیے وضو کی حاجت نہیں طواف کے لیے حاجت ہے تو اسی طور پر وضو کرکے کسی بھی نماز کے وقت میں طواف کرے۔“(فتاویٰ مرکز تربیت افتاء ، جلد 1 ، صفحہ 512، فقیہ ملت اکیڈمی)
فتاوی ہندیہ میں ہے
” والحيض والجنابة لا يمنعان صحة السعي كذا في محيط السرخسي. و الأصل أن كل عبادة تؤدى لا في المسجد من أحكام المناسك فالطهارة ليست من شرطها كالسعي“
ترجمہ: حیض و جنابت ،سعی کی صحت کو مانع نہیں جیسا کہ محیط سرخسی میں ہے، اور اس میں اصل یہ ہے کہ احکام مناسک میں سے ہر وہ عبادت جو مسجد میں نہ ادا کی جاتی ہو اس میں طہارت شرط نہیں جیسے سعی ہے ۔(فتاوی ہندیہ ، کتاب الحج، باب فی کیفیۃ اداء لحج، ج 1، ص 227، دار الفکر، بیروت)
الجوہرۃ النیرۃ میں ہے
”فإن ‌سعى جنبا أو سعت المرأة ‌حائضا أو نفساء فالسعي صحيح لأنه عبادة تؤدى في غير المسجد“
ترجمہ:پس اگر حالت جنابت میں سعی کی یا عورت نے حالت حیض یا نفاس میں سعی کی تو سعی صحیح ہوگی کیونکہ یہ وہ عبادت ہے کہ جو مسجد کے علاوہ میں ادا کی جاتی ہے ۔(الجوہرۃ النیرۃ ، كتاب الحج،باب الجنايات في الحج،جلد 1، صفحہ 172،المطبعه الخيريه)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
ممبر فقہ کورس
28ذی القعدہ 1445ھ05 جون 2024ء
نظر ثانی:
مفتی محمد انس رضا قادری
─── ◈☆◈ ───