ی۔دینیات, باب الصلوۃ, حج و عمرہ سے متعلق مسائل

حاجی منی عرفات اور مزدلفہ میں قصر کرے گا یا نہیں


مسئله :زید جو ہندوستان کا ایک سنی حنفی عالم دین ہے 3 ذی الحجہ کو مدینہ طیبہ سے مکہ معظمہ حاضر ہوا جس کی نیت یہ تھی کہ حج کے بعد ایک ماہ مکہ معظمہ میں قیام کرے گا عالم مذکور نے منی اور عرفات میں چار رکعت والی فرض نمازوں میں قصر کی اور 9 ذی الحجہ کی رات کو جب عرفات سے مزدلفہ پہنچا تو عشا میں قصر کی اس پر بکر نے کہا کہ یہاں پر قصر کرنا غلط ہے عالم دین نے بکر کو سمجھانے کی کوشش کی مگر انھوں نے کہا کہ میں کئی بارحج کر چکا ہوں بڑے بڑے علماء کا ساتھ رہا ہے یہاں پر قصر ہر گز نہیں ہے تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ صورت مذکورہ میں عالم دین کا منی، عرفات اور مزدلفہ میں قصر کرنا صحیح ہے یا بقول بکر ان مقامات پر قصر کرنا غلط ہے۔
کتب معتبرہ کے حوالہ سے بیان فرما کر عند الله مأجور ہوں۔
الجواب : صورت مستفسرہ میں عالم دین جب کہ تین ذی الحجہ کو مدینہ طیبہ سے مکہ معظمہ حج کے لئے حاضر ہوا تو مسافر رہا مقیم نہ ہوا اس لیے کہ 15 دن کے قبل ہی اسے منی اور عرفات کی طرف نکلنا تھا تو جب بحالت مسافرت اس نے منی، عرفات اور مزدلفہ کی حاضری دی تو ان مقامات پر چار رکعت والی فرض نماز میں قصر ضروری ہوا بلکہ وہ عالم دین 3 ذی الحجہ کو جب کہ وہ مکہ معظمہ میں داخل ہوا اگر اقامت کی نیت بھی کرتا تو وہ نیت اس کی صحیح نہ ہوتی اور قصر لازم رہتا بکر کا قول صحیح نہیں لہذا اس نے اگر کسی بھی سال مذکورہ صورت میں قصر نہ کیا تو ترک واجب کے سبب ، گنہگار ہوا ۔ فتاوی عالمگیری جلد اول مطبوعہ مصر ص 131 میں ہے ۔
ان نوى الاقامة اقل من خمسة عشر يوما قصر هذا الى الهداية اھ –
بحر الرائق جلد ثانی ص 132اور فتاوی ہندیہ جلد اول مصری ص 131میں ہے
ذکر فی کتاب المناسك عند الحاج اذا دخل مكة في ايام العشر ونوى الاقامة نصف شهر لا يصح لانه لا بدله من الخروج الى عرفات فلا يتحقق الشرط اھ۔
اور بدائع الصنائع جلد اول ص 98 میں کتاب مذکور کے حوالہ سے ہے ان الحاج اذا دخل مكة في ايام العشر و نوى الاقامة خمسة عشر يوما او دخل قبل ايام العشر لكن بقى إلى يوم التروية اقل من خمسة عشر يوما و نوى الاقامة لا يصح لأنه لابد له من الخروج الى عرفات فلا يتحقق نية اقامته خمسة عشر يوما فلا يصح اھ-
فتاوی عالمگیری جلد اول مصری ص 130 میں ہے القصر واجب عندنا كذا في الخلاصة اھ۔ در مختار میں ہے صلی الفرض الرباعى ركعتين وجوبا بالقول ابن عباس
ان الله فرض على لسان نبيكم صلاة المقيم اربعا و المسافر رکعتین اھ اور بحر الرائق میں ہے۔لو اتم فانه اثم عاص اھ۔ وهو تعالى اعلم با الصواب !
بحوالہ -فتاوی فیض الرسول
ص:393 جلد 1

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *