قوت ارادی will power قوت یقین CONFIDENCE قوت فکر IMAGINATION قوت ہدایت SUGGESTION
اب میں الگ الگ ان طاقتوں کا ذکر کرتا ہوں جو انسان پر اثرانداذ ہوتی ہیں اور جن کو حاصل کرنے کے بعد انسان حقیقی معنوں میں قدرت کی منشا کےمطابق اشرف المخلوقات بن جاتا ہے۔یہ قوتیں ہر انسان میں موجود ہوتی ہیں۔فرق صرف کمی بیشی اور صحیح توازن کا ہے۔
قوت ارادی:WILLPOWERجیسا کہ نام سے ظاہر ہے قوت ارادی ‘ارادے کے استحکام کا نام ہے ۔بظاہر یہ چیز معمولی دکھائی دیتی ہے لیکن حقیقتا یہی وہ چیز ہے جس میں شکست و فتح کا راز مضمر ہے انسان بے انتہا کمزوریوں کا مجموعہ ہے وہ ایسی ایسی جبلتیں لے کر پیدا ہوا ہے جو اگر اس پر بلااحتساب مکمل طور پر مسلط اور قابض ہو جائیں تو پھر وہ حیوانیت کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے مگر انسان اپنے ارادے سے اپنے اپ کو بہیمیت کی طرف لوٹنے سے روکتا ہے۔کمزور قوت ارادہ رکھنے والے لوگ قوی ارادے کے مالکوں کے آگے غلام بنے رہتے ہیں اگر جسمانی اعتبار سے وہ غلامی سے نکل بھی جائے تو ذہنی طور پر وہ چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے زندگی میں ہر ہر قدم پر ہمیں اپنے ارادے کے قوی اور کمزور ہونے کی بدولت ہی نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے ہمارے ہر فعل کا انجام ہمارے ارادے ہی پر منحصر ہے تاریخ اٹھا کر دیکھیے تو آپ کو ایسی شخصیتیں نظر آئیں گی جو جسمانی اعتبار سے تو بالکل کمزور تھی مگر انہوں نے ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دیے جو قوی ہیکل انسان ہی کر سکتے تھے آمروں کی آمریت شہنشاہوں کی شہنشاہیت اور جرنیلوں کی جرنیلی ہمیشہ اس وقت ختم ہو گئی جب ان کے ارادوں میں کمزوری پیدا ہوئی میدان جنگ میں جب بھی کسی فوج کا ارادہ متزلزل ہوا وہ میدان ہار گئی جب قوت ارادی کمزور ہو جائے تو انسان بزدل ہو جاتا ہے اس کی قوت فیصلہ جواب دے دیتی ہے جب قوت فیصلہ سلب ہو جائے تو ظاہر ہے سارا نقشہ ہی بدل جائے گا یہی قوت فیصلہ ہمارے کاموں پر اثر انداز ہوتی ہے خواہ وہ کسی شہنشاہ کی حکومت کا سوال ہو یا اپ کا کوئی معمولی کام تمام کاموں کا انحصار صحیح اور بروقت فیصلہ کرنے پر ہے اسی قوت سے خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور اسی سے قوت یقین یا قوت ایمان پیدا ہوتی ہے۔قوت یقین اور قوت ارادی کا اس قدر گہرا رشتہ ہے کہ بعض اوقات ان دونوں کو الگ الگ کرنا دشوار ہو جاتا ہے کہا جا سکتا ہے کہ جب تک قوت یقین نہ ہو قوت ارادی کا پیدا ہونا دشوار ہے یعنی جب تک کسی کام کے نتائج کا یقین نہ ہو اس کام کے کرنے کے لیے ارادے کا استحکام ناممکن ہے مگر اس طرح یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جب تک کسی کام کو سر انجام دینے کا ارادہ نہ ہو تو پھر یقین کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا جب تک ارادہ نہ پیدا ہو فعل سرزد ہی نہ ہو سکے گا بہرحال بیان کردہ چاروں قوتوں کی کڑیاں اس طرح آپس میں ملی جلی اور باہم مربوط ہیں کہ بسا اوقات ان کو ایک دوسرے سے جدا کرنا دشوار ہو جاتا ہے اس لیے قوت ارادی کے عنوان کو اولیت دینے سے میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ فوقیت اسی عنوان کو حاصل ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ ان قوتوں کو علیحدہ علیحدہ بیان کیا جائے اور سمجھا جائے۔ہاں تو میں ذکر کر رہا تھا کہ ہماری زندگی کے ہر ہر قدم پر قوت ارادی اثرانداز ہوتی ہے ایک چھوٹی سی مصال یوں لے لیجئے کہ آپ کوئی چیز خریدنا چاہتے ہیں پہلے آپ ارادہ کرتے ہیں پھر فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ چیز خرید نہ ضروری ہے اور ساتھ ہی یہ فیصلہ بھی کرتے ہیں کہ اس کی اتنی قیمت ادا کرنا ہے اگر آپ کا ارادہ قوی نہیں تو آپ دکاندار کے پاس متزلز ل ارادے کے ساتھ جاتے ہیں اور آپ کو اپنی پسند کی چیز خری نے میں نہ صرف وقت ہوتی ہے بلکہ ممکن ہے کہ غلط چیز غلط ڈیمو پر لے ائیی۔میرے پاس ایک سیلز میں آیااس نے پوچھا کہ ایک اچھے سیلرز مین میں کیا خصوصیات ہونا چاہئیں میں نے کہا کہ کامیاب سیلز مین وہ ہوتا ہے جو کسی خریدار کو وہ چیز بیچ سکے جو وہ قطعی خریدنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو آپ کو اکثر تجربہ ہوا ہوگا کہ آپ گھر سے یہ ارادہ کر کے نکلتے ہیں کہ آپ اپنے لیے کاٹن کا سوٹ خریدیں گے اور مختلف دکانیں دیکھتے ہیں یکا یک آپ ایک دکان پر بجائے کاٹن کے نائلون کا سوٹ خرید لیتے ہیں دراصل اپ نائلون لینا نہیں چاہتے تھے یہ تو اس دکاندار کی قوت ارادی تھی کہ اس نے آپ کے ہاتھ وہ چیز فروخت کر ڈالی جو اپ لینا نہیں چاہتے تھے اپ کے ارادے پر اس کے ارادے نے قبضہ کر لیا اور اپ کو ایک قوی ارادے کا شکار ہونا پڑا بعض لوگ قوت ارادی کو ہٹ دہرمی ہی ہوئی لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ قوت ارادی اور ہٹ دھرمی میں بہت فرق ہے بلکہ یہ دونوں متضاد چیزیں ہیں جس شخص کی گود ارادی مضبوط ہوگی اس کی کود فکر بھی دوسروں سے بہتر ہوگی وہ قوت فکر سے کسی مخصوص فعل کے بارے میں اچھی طرح اگاہ ہوگا اور جب وہ کسی فیصلے پر پہنچے گا تو وہ فیصلہ نہ صرف یہ کہ پختہ ہوگا بلکہ صحیح بھی ہوگا اس کے برخلاف ایک ہٹ دھرم انسان بہت ہی محدود قوت فکر کا عامل ہوتا ہے اور محدود تخیل کا انسان کبھی اچھی قوت ارادی کا حامل نہیں ہوتا قوت فکر رکھنے والا انسان ایک صحیح دماغ رکھتا ہے اسے اس کی قوت فکر زندگی کا گہرا مشاہدہ کرنے پر مجبور کر دیتی ہے اس کے مشاہدات کی وسعت اسے ہر فیصلے سے پہلے سوچنے کا عادی بنا دیتی ہے اس طرح وہ خود بخود ذہین ہوتا جاتا ہے وہ جب اچھی طرح سوچ چکا ہے تو پھر مکمل اعتماد اور مستحکم ارادے کے ساتھ عمل کرتا ہے اس کا فیصلہ بہت کم غلط ہوتا ہے چونکہ ایک طرف مستحکم قوت ارادی کا مالک کوئی کام کرنے سے پہلے اس کا مکمل ارادہ کرتا ہے دوسری طرف اس کا ذہن اتنا وسیع ہوتا ہے کہ اگر اسے اپنے فیصلے پر ذرا بھی شک ہو تو فورا اس پر نظر ثانی کرتا ہے بلکہ شک کی صورت میں وہ کوئی فیصلہ ہی نہیں کرتا ہے اس کے بر خلاف ہٹ دھرم انسان نظر ثانی کا قائل نہیں ہوتا اس کی ہٹ دھرمی بذات خود اس کی کم فہمی اور غیر ذمہ داری کا ثبوت ہوتی ہے۔جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں متذکرہ چاروں قوتوں کا ایک دوسرے سے گرا تعلق ہے پڑے گا قوت ارادی کو مستحکم بنانے کے لیے آپ قوت ہدایت سے کام لیتے ہیں اس کے ساتھ ہی اپ تصور کرتے ہیں کہ یہ کام ضرور ہوگا اور اس کو ضرور ہونا ہے اس کے ساتھ ہی اپ کے اندر قوت یقین بھی پیدا ہوتی ہے کیونکہ جب تک یقین نہ پیدا ہوگا ارادے کا مستحکم ہونا ناممکن ہوگا اگر ان چاروں قوتوں میں سے کوئی بھی کمزور ہو گئی تو اپ کے ذہن میں شاید جنم لے گا یعنی شاید فلاں کام ہو جائے شاید کا لفظ ہی شک کی ابتدا ہے اور جب شک پیدا ہو جائے تو ارادے کا استحکام یعنی قوت ارادی کمزور ہو جاتی ہے آپ نے اکثر تجربہ کیا ہوگا کہ اگر آپ کسی خاص وقت پر اٹھنا چاہتے ہیں اور اپ کے پاس الارم والی گھڑی نہیں ہے تو پھر آپ ارادہ کرتے ہیں کہ آپ فلاں وقت اٹھیں گے آپ خود سے کہتے ہیں کہ مجھے فلاں وقت اٹھنا ہے مجھے ضرور اٹھنا پڑے گا اس طرح آپ اپنے آپ کو ہدایت دیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ یقین رکھتے ہیں کہ آپ وقت مقررہ پر ضرور اٹھیں گے اپ کا ارادہ تو پہلے ہی تھا مگر اپ ان قوتوں کی مدد سے اپنے اس ارادے کو مستحکم کرتے ہیں پھر آپ نے دیکھا ہوگا کہ اپ اس مخصوص وقت پر جاگ اٹھے ہیں یہ الگ بات ہے کہ اپ جا کر دوبارہ سو جائیں اس وقت معینہ پر اٹھانا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کے ارادے کے استحکام میں اپ کے لاشعور کو متاثر کیا اور اس نے جواباً کارروائی کی جو اپ چاہتے تھے۔اسی طرح جب اپ کوئی کام کرنے جائیں تو یہ ضروری ہے کہ اپ کا ارادہ مکمل اور پختہ ہو کسی کام کو اس وقت تک شروع نہ کریں جب تک کہ ارادے کی قوت اپ کو اس بات کا یقین نہ دلا دے کہ وہ کام اپ بخوبی سر انجام دے سکتے ہیں چنانچہ اگر اپ نے کوئی کام شروع کر لیا ہے تو پھر اس کو پایا تکمیل تک پہنچائے کسی کام کو ادھورا چھوڑنا قوت ارادی کی کمزوری کی نشانی ہے اپنی زندگی کا یہ نصب العین بنا لیں اور کوئی کام کرنے سے پہلے اس کے تمام پہلوؤں پر غور کر لیں اور پھر فیصلہ کریں جب فیصلہ کر چکے تو پھر قدم پیچھے نہ ہٹائیں صبح شام اپنے آپ قوم مسلسل ہدایت دیں کہ آپ قوی ارادے کے مالک ہیں جو چاہیں کر سکتے ہیں جو کچھ شروع کریں گے اسے مکمل کریں گے جب تک آپ کے اندر یہ قوت پیدا نہ ہو جائے اس وقت تک آپ کسی کام کو مکمل طور پر نہیں کر سکتے اور نہ ہی اس کا تسلی بخش نتیجہ حاصل کر سکتے ہیں یا در گھیے کمزوریاں ہر شخص میں ہوتی ہیں مگر ان کمزوریوں پر قابو پانے کی بھی قوت قدرت نے ہر انسان میں بدرجہ اتم پیدا کر دی ہے کوئی وجہ نہیں کہ آپ بھی اس قوت کے مالک نہ بن سکیں یہی وہ قوت ہے جو آپ کی زندگی کی تقدیر بدل سکتی ہے اس کی بدولت دنیا آپ کے سامنے سرنگوں ہو سکتی ہے آپ کا ارادہ ایک ایسے فولادی ستون کی مانند ہونا چاہیے جسے دنیا کی کوئی قوت نہ توڑ سکے اور نہ متزلزل کر سکے۔
تنویم HYPNOTISM
01
Apr