چھوٹے بچوں کو پہنا ٹائز نہ کرنا چاہئے۔ عام طور پر ان کو ذہنی نا پختگی کی بناپر ہپناٹزم نہیں کیا جا سکتا لیکن ہم ہپناٹزم کے اصولوں سے بچوں کے ذہن پر بہتر اور حسب منشا اثر ڈال سکتے ہیں۔اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جب بچہ سونے لگے اور ہلکی نیند میں ہو تو اس کے پاس بیٹھ کر آہستہ اور نرم لہجے میں سجیشن دیں۔ وہ آپ کی آواز کو سنے گا اور اس کا ذہن سجیشن کو جذب کرلے گا۔
مثلا بستر پر پیشاب کرنے کی عادت بہت بری ہوتی ہے یہ عادت عام طور پر بچے والدین کی توجہ کو اپنی طرف مرکوز کرنے کے لئے ذہنی طور پر اپنے اندر پیدا کر لیتے ہیں۔جب بچے کو یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ اس کے والدین اس سے محبت نہیں کر رہے ہیں تو وہ ان کی توجہ کا مرکز بننے کے لئے عجیب عجیب کی لاشعوری حرکات کرتا ہے۔ان میں سے ایک بستریرپیشاب کرنا بھی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ والدین بچے کے ساتھ اپنا رویہ بدلیں اور اسے اپنی محبت سے نوازیں۔اس کے ساتھ ساتھ والدین اس کو رات کو سجیشن بھی دیں مثلا۔تم بہت اچھے بیٹے ہو۔ میں تم سے محبت کرتا ہوں ( کرتی ہوں) تم بہت پیارے بچےہو۔ اچھے بچے بستر پر پیشاب نہیں کیا کرتے۔ تم اب بستر پر پیشاب نہ کرو گے۔ جب بھی پیشاب لگے گا مجھے جگا کر کر اپنی خواہش ظاہر کرو گے۔ تم بہت اچھے بیٹے ہو ۔ اب تم سو جاؤ میٹھی اور گہری نیند اس قسم کی سجیشن روزانہ دینا چاہئے۔عموما چار پانچ روز سجیشن دینے سے بچہ اپنی عادت بدل ڈالے گا۔ سجیشن دیتے وقت اس بات کا خیال رہے کہ بچہ گری نیند نہ سویا ہو۔ اگر وہ گہری نیند سو چکا ہو تو اسے آہستہ سے جگا دیں اور جب وہ دوبارہ غنودگی میں آجائے تو سجیشن دیں۔ سجیشن بڑی پیاری اور نرم آواز میں ہونی چاہئے۔ اس طرح ہر قسم کی بری عادت کو چھڑوانے کے لئے بھیشن دی جا سکتی ہے۔ مگر والدین کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ایسا نہ ہو کہ رات کو تو وہ اس کو بہت پیارا اور اچھا بچہ ہونے کی سجیشن دیں مگردن میں اس کو برا بھلا کہتے رہیں۔ اس صورت میں سجیشن کا خاطر خواہ اثر نہ ہو گا بلکہ ممکن ہے کہ بچہ کسی ذہنی الجھن کا شکار ہو جائے۔ بچوں میں چھوٹی موٹی بیماریاں بھی عام طور پر محبت حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہیں۔ کچھ عرصہ ہوا ایک محترمہ نے شکایت کی کہ ان کے بچے کو آئے دن بخار ہو جاتا ہے۔ بہت علاج کیے ہیں مگر یہ بخار ہفتے میں دو بار ضرور ہوتا ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ ان کے اور کتنے بچے ہیں ؟ انہوں نے بتایا کہ دو۔ ایک اس سے چھوٹا ہے اور ایک بڑا۔ مجھے فورا خیال ہوا کہ وہ اپنی محبت زیادہ تر چھوٹے بچے کو بخش رہی ہیں چنانچہ میں نے ان سے کہا کہ آپ اپنے اس بچے سے زیادہ محبت اور پیار کا سلوک کریں۔ لہذا جب انہوں نے اپنا رویہ بدلا تو بچے کا بخار بھی جاتا رہا۔ یہ ایک حیرت ناک بات تھی۔ کیونکہ عام طور پر بخار کسی نہ کسی INFECTION سے ہوتا ہے اور یہ INFECTION بغیر دوا کے دور نہیں ہوتا لیکن میں گزشتہ صفحات میں لکھ چکا ہوں کہ کس طرح انسانی ذہن ان جراثیم کو پالتا ہے اور محبت کی خاطر کیا کیا بیماریاں نہیں ہوتیں؟
عموماً دیکھا گیا ہے کہ جو والدین بچوں کو ذہنی محبت نہیں دے سکتے ان کا دل کھلونوں سے بہلانا چاہتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ بچے کھلونوں سے زیادہ والدین کی گرم آغوش اور پیار بھرے بوسوں کے آرزو مند ہوتے ہیں۔ کھلونے محبت کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔
اسکول سے دل چرانے والے بچے:
والدین کو بعض اوقات یہ شکایت پیدا ہو جاتی ہے کہ بچہ اچھا بھلا اسکول جارہا تھا
یکایک وہ پڑھائی سے کترانے لگا۔ وہ وقت بڑا صبر آزما ہوتا ہے جب والدین بچے کے مستقبل کو درخشاں بنانا چاہتے ہیں مگر بچہ کند ذہن نکلتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کند ذہنی بعض اوقات پیدائشی بھی ہوتی ہے لیکن ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ بچہ اسکول کے زمانے میں کند ذہن اور پڑھائی کا چور تھا مگر بعد میں وہی بچہ ایک اچھا پروفیسر بن گیا۔ پڑھائی سے نفرت کا آغاز عموما بے جادباؤ سے شروع ہوتا ہے اس میں استادوں کا ہاتھ بھی ہوتا ہے۔ اتفاق سے اگر بچے کو سبق یاد نہ ہوا اور استاد نے سزادی ہو تو یہی وہ پہلا قدم ہے جہاں سے بچے کو اس مخصوص کتاب پھر اس مخصوص استاد اور پھر اس مخصوص اسکول سے نفرت ہو جاتی ہے۔ اس لئے بچے پر کبھی دباؤ نہ ڈالا جائے۔اگر بچہ کسی خاص سبق کو یاد نہیں کر سکتا تو کچھ دنوں کے اسے باز پرس نہ کی جائے اور اس دوران اس سے نرمی اور پیار کا برتاؤ کیا جائے کے دل میں پڑھائی کا شوق صرف پیار ہی سے ڈالا جاسکتا ہے۔بچے کی صحت کا بھی خیال رکھیں۔اس کو کسی ایسے بچے سے نہ ملنے دیا جائے جو اسے پڑھائی کے خلاف ورغلائے مگر یہاں بھی بہت ہوشیاری اور عقل مندی کی ضرورت ہے۔بچے سے زبردستی اس کا دوست چھڑانا بری بات ہے۔اس لئے کافی ذہانت کی ضرورت ہے۔ عام طور پر بچے پیار اور محبت سے ہر بات مان جاتے ہیں۔ بچے کو رنگین تصاویر والی کہانیاں پڑھنے کو دی جائیں۔ اسے ایسی کہانیاں سنائی جائیں جن میں بڑے لوگوں کے بچپن کے واقعات ہوں اور پھر ہر رات اسے سجیشن بھی دینا چاہئے۔اس سجیشن میں بچے کو پڑھائی کی طرف راغب کیا جائے۔قدرے پیار اور محنت سے کند ذہن بچے بھی ذہین ہو جاتے ہیں۔
اجتماعی طریقہ علاج
MASS HIPNOTISM
بعض اوقات اجتماعی طریقہ علاج سے جو فوائد نکلتے ہیں، وہ انفرادی طور پر علاج سے ظاہر نہیں ہوتے۔بعض اوقات علیحدہ علیحدہ ہپناٹائز کرتے ہوئے بعض افراد ہپناٹائز نہیں ہوتے لیکن اگر بھری مجلس میں ہپناٹائز کیا جائے تو وہ لوگ جو انفرادی طور پر آسانی سےمعمول نہیں بن سکتے،وہ دوسروں کو دیکھ کر جلد اثر قبول کر لیتے ہیں۔اس میں بہت سی آسانیاں ہیں اول یہ کہ اجتماعی طریقہ علاج میں ضروری نہیں کہ آپ گہری نیند ہی سلائیں بلکہ مجمع کو آرام سے آنکھ بند کر کے بیٹھ جانے کو کہیں۔اس کے بعد ان کو بیشن دیں۔ اس طرح پچاس فی صد مریض تین چار نشستوں میں صحت یاب ہو جاتے ہیں اور باقی کافی افاقہ محسوس کرتے ہیں۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ ہر مجلس سے پہلے SELF HEALING پر تبصرہ کریں تاکہ لوگ اچھی طرح سمجھ سکیں کہ ذہن علالتوں پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ اس کا ذکر گزشتہ صفحات میں کیا جا چکا ہے۔ یہ تبصرہ تقریر کے انداز میں ہونا چاہئے۔ جس میں ذہنی علالتوں اور پھر ذہنی طور پر علاج کے بارے میں مختصرا سب کچھ کہنا ضروری ہوتا ہے۔ایک ایسی جگہ تلاش کریں جہاں شوروغل نہ ہو اور ہال میں کرسیاں پڑی ہوں۔سامنے آپ کے لئے الگ جگہ ہو۔اجتماع میں آنے والے مریض دعوت ناموں کے ذریعےبلائے جائیں اور پابندی وقت کا خیال رکھیں کیونکہ ایک دفعہ مجلس شروع ہونے کے بعد اگر کوئی آتا جاتا رہا تو پھر مداخلت ہونے کی وجہ سے عمل میں دشواری پیدا ہوگی۔ دعوت نامے جاری کرنے کے ساتھ ہی مریض کو ہسٹری فارم بھی بھجوائے جائیں۔میرے ہسٹری فارم مندرجہ ذیل قسم کے ہیں:
نمبر
مریض کا نام وپتا۔۔۔۔
پیشہ۔۔۔۔۔۔
بیماری کی نوعیت۔۔۔۔
عرصه علالت۔۔۔۔۔
دیگر ڈاکٹروں کی رائے۔۔۔۔۔
کوئی اور ضروری بات جو مریض بتانا چاہتا ہو۔۔۔۔۔۔
نوٹ: مریضوں سے درخواست ہے کہ اپنے لیباریٹری ٹسٹ کی تمام ٔ رپورٹیں اگر ممکن ہو تو فارم کے ساتھ بھجوائیں۔اس قسم کے فارم پر کرنے سے آپ پر مریض کی عمومی حالت ظاہر ہو جاتی ہے اور یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ آپ کس قسم کے مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔ان کا ریکارڈ رکھنے میں آسانی ہوتی ہے اور نتائج سے بھی پوری واقفیت رہتی ہے۔اگر مریض کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہے جس کے لئے فوری طور پر طبی امداد یا علاج کی ضرورت ہے تو حسب حال آپ ہدایت دے سکتے ہیں۔ ان تمام باتوں کے بعد آپ مجلس کا آغاز کریں۔ ذہنی اور لاشعوری تاثرات بیان کرنے کے ساتھ ہی آپ کو اپنے طریقہ کار کی طرف بھی اشارہ کرنا ہو گا مثلاً میں کچھ اس قسم کی تقریر کرتا ہوں ظاہر ہےحضرات علاج کی خاطر آئے ہیں۔ آپ لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہوں گے جو محض آزمائش کی خاطر آئے ہیں اور کچھ ایسے ہوں گے جو دوسرے علاجوں سے تھک کر یہاں قسمت آزمانے آئے ہیں۔ میں یہاں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں جو کچھ کروں گا وہ محض آپ کی شفا بخش قوتوں کو ابھارنے کے لئے کروں گا۔ یہ نہ تو جادو ہےاور نہ ہی کوئی روحانی منتر۔ یہ عمل قطعی طور پر سائنسی ہے اور اس سے ہر وہ شخص استفادہ کر سکتا ہے جو کرنا چاہتا ہو اور جو خود کو اس عمل کے حوالے کردے۔ جو حضرات میری ہدایات پر عمل نہیں کریں گے، محض اپنا وقت برباد کریں گے۔ اور جو حضرات محض آزمائش کے لیے تشریف لائے ہیں ان سے استدعا ہے کہ وہ خاموشی سے بیٹھے رہیں اور اگر ہو سکے تو عمل میں حصہ لیں۔ وہ دیکھیں گے کہ کس طرح یہ عمل ہزاروں دکھے دلوں پرمرہم رکھتا ہے اور بیمار آدمیوں کو شفا بخش ہے۔اب میں عمل شروع کرتا ہوں علاج کے متمنی حضرات جیسا میں کہوں ویسا کریں اور شوقین حضرات خاموش بیٹھے رہیں۔ حضرات! آپ آرام سے بیٹھ جائیں اور اپنے جسم ڈھیلے چھوڑ دیں۔ بالکل ڈھیلے۔ اب آنکھیں بند کرلیں۔قدرے گہرے گہرے سانس لیں ایک دو تین۔ اب اپنے ذہن کو بالکل خالی کریں، قطعی خالی۔ آپ محسوس کریں گے کہ آپ بہت مسرور کن لمحوں میں داخل ہو رہے ہیں۔ آپ حضرات پر ہلکی غنودگی طاری ہو رہی ہے۔ فرحت بخش غنودگی طاری ہو رہی ہے، آپ صحت یاب ہو رہے ہیں۔ آپ کی علالت دور ہو رہی ہے۔ آپ کی تکلیفوں میں افاقہ ہو رہا ہے۔ آپ کی پرانی بیماریاں صحت مندی کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ آپ قطعی آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں، آپ کا جسم ڈھیلا ہو چکا ہے۔ آپ پر فرحت انگیز غنودگی طاری ہے۔ آپ صرف اس وقت جاگیں گے جب میں آپ سے کہوں گا۔ میں اب گنتی گنتا ہوں۔ ہر گنتی کے ساتھ آپ کی علالت کم ہوتی جائے گی۔ ایک دو تین! اس کے بعد پندرہ تک آہستہ آہستہ گن کر دس سیکنڈ تک خاموش رہیں۔ اب میں آپ سے آنکھیں کھولنے کے لئے کہوں گا، آپ آنکھیں کھولیں گے تو خود کو بہت حد تک صحت مند محسوس کریں گے۔اچھا اب آنکھیں کھولیں۔ سب مریض آہستہ آہستہ آنکھیں کھول دیں گے۔ اگر کوئی گہری غنودگی میں چلا گیا ہو تو اس کے قریب جا کر اسے جاگنے کا حکم دیں۔ حضرات اب فلاں دن تشریف لائیں۔ دو چار نشستوں میں آپ لوگ اپنے آپ کو قطعی طور پر صحت مند پائیں گے۔ اس کے بعد محفل برخاست کر دیں۔ جب تک پہلی مجلس کا علاج مکمل نہ ہو جائے، دوسری مجلس شروع نہ کریں۔ نئے لوگوں کے لئے آپ کو الگ مجلس منعقد کرنا ہوگی کیونکہ ان کے لئے نئے سرے سے سب کچھ کرنا ہو گا۔بہت سے حضرات آپ سے انفرادی طور پر ملاقات کرنا چاہیں گے یہی لوگ آپ کا ذریعہ معاش ہوں گے۔ ان سے آپ مناسب فیس لے سکتے ہیں لیکن کوشش کریں کہ غربا سے پیسہ نہ لیا جائے۔ یہ خدمت خلق ہے۔ امرا سے بھی مناسب رقم لیں۔ تنگ دست رہ کر غربا کی مدد کرنے والا انسان لمبی عمر اور میٹھی نیندپاتا ہے اس لئے کہ اس کا ضمیر صاف ہوتا ہے۔